کیا اپوزیشن آخری پتہ کھیلے گی؟

مارچ 1977 کے متنازعہ انتخابات کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت بنائی تو اس کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں تھی۔ سات مارچ 1977 کو ہونیوالے انتخابات میں 9 جماعتی اپوزیشن نے یہ الزام لگایا کہ ان انتخابات میں چالیس نشستوں پر دھاندلی کی گئی ہے جس کے بعد دس مارچ 1977 کو ہونیوالے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا مسٹر بھٹو کی اپوزیشن نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس کے باوجود بھٹو صاحب نے قومی اسمبلی کے اجلاس بھی بلائے اور اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بھی طلب کئے گئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی بنائی گئیں لیکن ان حکومتوں کا کوئی قانونی و اخلاقی جواز نہیں تھا۔ یہ حکومتیں زیادہ عرصہ نہ چل سکیں ان کیخلاف ملک بھر میں پرتشدد احتجاج شروع ہو گیا۔ 
اس کے بعد بھی ہماری سیاسی تاریخ میں حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کبھی کشیدگی اور تلخی سے پاک نہیں رہے۔ نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی حکومتوں کو غیر مستحکم کر کے قبل از وقت انتخابات کے لئے راہ ہموار کرتی رہیں۔ اس زمانے میں بھی اپوزیشن اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکیاں دیتی رہی لیکن عملاً کبھی کبھی اپوزیشن نے استعفے نہیں لئے۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے خلاف پی ڈی ایم کے نام سے جو نو جماعتی اپوزیشن اتحاد قائم ہوا ہے اس میں کم از کم دو ایسی جماعتیں شامل ہیں۔ جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کیلئے آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ یہ دو جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور جمیعت علمائے اسلام ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے پورا زور لگایا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان ۔ 2018 کے الیکشن کے بعد رکنیت کا حلف نہ اٹھائیں اور اس طرح اس حکومت کو ایک بحران میں مبتلا کریں تا کہ نئے انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے۔ اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں نے مولانا صاحب کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور اپوزیشن ارکان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف اٹھا لیا۔ مولانا مسلسل یہ کہتے رہے کہ اپوزیشن کو اس انتظام کا حصہ نہیں بننا چاہیے جوان کے خیال میں رگنگ کی پیداوار ہے۔ مولانا نے گذشتہ مارچ میں تنہا اسلام آباد تک مارچ بھی کیا اور یہ بڑا موثر مارچ تھا لیکن انھیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس انداز میں سپورٹ نہیں کیا جس کی مولانا توقع کر رہے تھے۔ اب اڑھائی سال گزرنے کے بعد مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور دوسری جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ موجودہ حکومت معاشی میدان میں ناکام ہو گئی ہے اور وہ ڈیلیور نہیں کر پائی، اسی طرح اس حکومت کی گورننس بھی بہت کمزور ہے اور وہ اپنے منشور میں دیئے گئے اہداف حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ 
مسلم لیگ ن نے توموجودہ نظام پر ’’کھلا وار‘‘ (Frontal Attack ) کر دیا ہے۔ ن لیگ کے رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے اسٹبلشمنٹ کی بعض اہم شخصیات کو اس ساری صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انھوں نے پی ڈی ایم کے جلسوں سے ویڈیو لنک سے جو خطاب کئے ہیں ان سے مسلم لیگ ن اس وقت پی ٹی آئی اور اسٹبشلمنٹ کیخلاف اس وقت سب سے جارحانہ پالیسی پر چل رہی ہے۔ لگتا ہے کہ وہ مولانا صاحب سے ہم آواز ہو کر باقی جماعتوں و قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ ان کے ارکان اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں تا کہ نئے انتخابات کی راہ ہموارہو سکے۔ 
استعفوں کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ  مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے پہلے پہلے موجودہ حکومت کو چلتا کیا جائے کیونکہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران سینیٹ کے الیکشن ہوئے تھے تو اسے سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل ہو جائیگی اور اس کی پوزیشن بہت مستحکم ہو گی۔ 
اب بحث یہ چل رہی ہے کہ استعفے کب دیئے جائیں، ایک خبر یہ ہے کہ 8 دسمبر کو پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں استعفوں سے متعلق فیصلہ ہو گا۔ یہ اطلاع بھی گردش کر رہی ہے کہ لاہور میں تیرہ دسمبر کو ہونیوالے پی ڈی ایم کے اجلاس میں استعفوں کا اعلان ہو سکتا ہے۔ کچھ با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ استعفوں کے معاملے میں شاید پیپلز پارٹی کے تحفظات ہیں، سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا آصف زرداری سے رابطے میں ہیں اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی بھی استعفوں کیلئے اپنا ذہن تیار کرے۔ اسمبلیوں سے استعفے اپوزیشن کے پاس آخری ہتھیار ہوتا ہے جو وہ کسی حکومت کو گرانے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی ہارڈ لائنر جماعتیں مسلم لیگ ن ، جمیعت علمائے اسلام اور ان کی بعض قریبی اتحادی جماعتیں استعفوں پر متفق ہو سکتی ہیں۔ چھوٹی جماعتوں کیلئے مستعفی ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں اور وہ اگلے الیکشنز پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ اس میںشاید انھیں زیادہ نشستیں مل سکیں گی لیکن اس وقت بڑا مسئلہ پیپلز پارٹی ہے جس کی ایک صوبے میں حکومت ہے اور قومی اسمبلی میں سینیٹ میں بھی موثر نمائندگی موجود ہے۔ اصل فیصلہ پیپلز پارٹی کا ہو گا کہ وہ اس نظام کا حصہ رہنا چاہتی ہے یا نہیں۔ مسلم لیگ ن تو کشتیاں جلانے کیلئے تیار ہے۔ مولانا تو پہلے دن سے ہی اس نظام کو تلپٹ کرنے کیلئے تیار تھے، دیکھنا یہ ہے کہ اگلے ایک ہفتہ میں استعفوں سے متعلق اپوزیشن کیا فیصلہ کرتی ہے، اگر استعفے دینے کا اتفاق رائے سے فیصلہ ہوتا ہے تو یقینا ملک میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو گا۔ اپوزیشن کی چھوڑی نشستوں پر انتخابات کرانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اور یہ پہلی بار ہو گا کہ اپوزیشن استعفوں کا کارڈ استعمال کرے گی۔ اس حوالے سے اگلا ہفتہ بہت اہم ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن