روایات اور ثقافت کے آئینہ دار کراچی کے قہوہ خانے

رپورٹ صوفیہ یزدانی
soofiayazdani.khi@gmail.com

کراچی میں قہوہ خانوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔کسی زمانے میں قہوہ خانے روایات اور ثقافت کے آئینہ دار ہوتے تھے۔لوگ صاف ستھرے ماحول میں یہاں چائے پینے جایا کرتے تھے۔چائے ہر  طبقے کے لوگوں کا پسندیدہ مشروب ہے۔سردی ہو یا گرمی چائے اور قہوہ  سب بہت شوق سے پیتے ہیں۔ نماز فجر کے بعد  بعض لوگ نہارمنہ چائے (Bed tea) پینے کے عادی ہوتے ہیں ۔    بعض وزن کم کرنے کے لئے نہار منہ قہوہ پیتے ہیں۔ بعض۔ لوگ سونے سے پہلے رات کو چائے پینا پسند کرتے ہیں اس طرح چائے پینے کا سلسلہ صبح سے لیکر رات تک جاری رہتا ہے۔ موسم سرما میں یہ سلسلہ زیادہ ہوجاتا ہے موسم سرما میں چائے کے کپ سے اٹھتا ہوا دھواں اور چائے کی گرماہٹ جسم میں سردی کی شدت کو کم کردیتی ہے ایک زمانہ تھا جب لوگ گھروں میں چائے پینے کے ساتھ ساتھ دوستوں کے ساتھ گھروں سے باہر بھی قہوہ خانوں یا سڑکوں پرڈھابوں کی چائے پینا پسند کرتے تھے ۔سردیوںمیں قہوہ خانوںکی رونقیں دوبالا ہوجاتی تھیں۔دوسرے دن چھٹی کے باعث ہفتہ کی رات کو قہوہ خانوں میںرات گئے تک رونق رہتی تھی مختلف محافل جمتی تھیں جن میں وقت اور ضرورت کے لحاظ سے مختلف موضوعات زیر بحث آتے تھے ۔یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اساتذہ ‘ڈاکٹرز‘سماجی و مذہبی رہنما ‘سیاستدان ‘ادیب اور شاعر‘فنکاراور تاجر اراکین اسمبلی اور وزراء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ان قہوہ خانوںکی رونق تھے۔ گھریلو مسائل و حالات‘ سیاسی ماحول‘ مذہبی امور‘ سماجی مسائل‘ کراچی شہر کے ترقیاتی امور‘ بچوں کے شادی بیاہ کے معاملات‘ بچوں کی تعلیم‘ ملازمت اور بیماری وغیرہ کے معاملات زیر بحث آتے تھے اور ان کے مشترکہ  حل تلاش کئے جاتے تھے ۔یہ  قہوہ خانے ایک قسم کی بیٹھک ہوتے تھے جہاں سب پیارو محبت   کے پرامن ماحول میں چائے اور قہوے پیتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہتے  تھے۔ کراچی میں قیام پاکستان سے قبل ہی چند قہوہ خانے قائم تھے ۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں شامل ہونے کے باعث ہندوؤں اور سکھوں کے حملوں کے خوف سے مسلمان شہری ان قہوہ خانوں میں بیٹھنے سے گریز کرتے تھے اور چائے پی کر واپس آجاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں چند قہوہ خانے موجود تھے لیکن بے رونق تھے۔ خالی ہاتھ ہجرت کر  کے آنے والے مہاجرین عارضی کیمپوں اور عارضی بستیوں میں قیام پذیر تھے۔ کراچی کے شہری ان کی میزبانی کررہے تھے ۔کسی کو ان قہوہ خانوںمیںبیٹھنے کی فکر تھی اورنہ ہی کسی کو یہاںبیٹھ کر چائے اور قہوے پینے کا شوق تھا۔ مہاجرین اپنا گھر بار چھوڑنے اور اپنے عزیزوں کی شہادت پر افسردہ تھے۔ مہاجرین کی آباد کاری  کے لئے  طویل وقت د رکار تھا زندگی معمول پر آنے کے بعد رفتہ رفتہ قہوہ خانوں کی رونقیں بحال ہونے لگیں۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین بھی رات کو یا دن کے اوقات میں ان قہوہ  خانوں میں جاتے تھے۔ وہ وہاںبیٹھ کر ایک دوسرے کو ہندوستان میں گزاری جانے والی اپنی زندگی اور ہجرت کے واقعات سناکر ایک دوسرے کادکھ درد بانٹنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان قہوہ خانوں میں آنے والے شہریوںکی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا جس سے نہ صرف قہوہ خانوں کی رونقیں بڑھیں بلکہ قہوہ خانوں کے مالکان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔ 

لوگ مل کر بیٹھتے توان کے بچوںکے شادی بیاہ اور بچوں کے اسکولوں میں داخلوں کے معاملات گھریلو اور دیگر مختلف مسائل بھی حل ہوتے گئے۔ رفتہ رفتہ کراچی شہر میں ان قہوہ خانوں کی تعداد بڑھنے  لگی۔  ان قہوہ خانوں میں چائے کی مختلف اقسام کشمیری چائے اور قہوے(گرین ٹی) پینے کے لئے لوگ دور دور سے آتے تھے۔ جس وقت پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد نہیں ہوئی تھی ان قہوہ خانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ رائے عامہ کے رہنما کا فرض ادا کرتے تھے۔ لوگ یہاں بیٹھ کر چائے پینے کے ساتھ ساتھ اخبار کی اہم خبریں پڑھتے اورا ن پر تبصرے کرتے تھے ۔اخبار ہر شہری کی قوت خرید سے باہر تھا۔جن کے گھر اخبار آتے تھے وہ اپنے ساتھ یہاں اخبار  لاتے تھے۔ تفریح کے لئے مختلف کھیل بھی کھیلا کرتے تھے جن میں کوئی سودے بازی نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت بھی کراچی میں مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد تھے۔ سب مل جل کر رہتے تھے اور سب مل جل کر پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کرنا چاہتے تھے اور اپنی اپنی جگہ اس کے  لیئے کوشاں بھی تھے۔ تعصب نام کی کوئی چیز ان میں نظر نہیںآتی تھی۔
کراچی میں رفتہ رفتہ کارکانے اور صنعتیں لگنا 


شروع ہوئیںاورکراچی پاکستان کا ایک بڑا صنعتی شہر بن گیا۔صنعتوں کے قیام سے  پاکستان کے مختلف شہروں سے لوگ روز گار کی تلاش میں آ کر یہاں آباد ہوئے۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہاں قہوہ خانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔کراچی کا ماحول پر امن تھا۔لوگ  دفاتر سے واپسی پر اور رات کو کھانے پینے سے فارغ ہو کر  رات کو ان قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتے تھے۔ہفتہ کی رات کو یہ محافل رات گئے تک جاری رہتی تھیں۔یہاں آنے والے رات کو بہت سکون سے یہاں  بیٹھا کرتے تھے ۔رات بھر مختلف ذائقوں والی چائے کے دور  چلتے۔ سردیوں میں یہاں کی رونقیں بڑھ جاتی تھیں۔
ہوٹلوں اور قہوہ خانوں کو  اس زمانے میں بنیادی اہمیت حاصل تھی۔یہاں  مختلف شعبوں  سے تعلق رکھنے  والے  افراد‘ رائے عامہ کے رہنما اورسیاست دان بھی آتے تھے۔نوجوانوں کا مرکز ان کی تعلیم ہوتی تھی۔اس لئے وہ قہوہ خانوں میں کم ہی نظر آتے تھے البتہ ہفتہ کی رات  کو وہ  اپنے  گھر کے سامنے کی گلی یا سڑک پر کرکٹ کھیلتے نظر آتے تھے۔بعض  نوجوان گھروں میں لڈو‘ تاش ‘کیرم بورڈ‘تمبولااور اسی طرح کے دوسرے کھیل کھیلتے تھے جن میں  امی اور بہن بھائی  بھی شامل ہوتے تھے۔یہاں رات بھر ادبی  اور شعرو شاعری  کی محفلیں  بھی خوب جمتی تھیں۔بیت بازی بھی  ہوتی تھی۔جیتنے والے  خوشی میں ہارنے والوں کو چائے پلایا کرتے تھے۔تفریحی مقابلے شرطوں کے بغیر ہوا کرتے تھے۔مقابلوں میں چائے کے دور بھی چلتے تھے۔
قہوہ خانوں کا ماحول پر امن ہوتا تھا۔اس وقت کوئی پنجابی ‘مہاجر‘ پٹھان ‘ سندھی ‘ بلوچی ‘سرائیکی نہیں تھا۔پاکستان ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین بھی پاکستانی بن کر پاکستان کی ترقی کے خواہاں تھے۔سب مل جل کر پیار اور اتفاق کے ساتھ رہتے تھے۔لوگوں میں قناعت اور شکر گزاری تھی جس کے باعث  لوگ حرام اور ناجائز کمائی سے اجتناب کرتے اور  جو  ملتا اس  پر صبر کرتے تھے۔اسی لئے شہر میں چوریاں اور ڈکیتیاں  بہت کم ہوتی تھیں۔پولیس بھی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں مصروف رہتی تھی۔پولیس دکانوں اور ڈھابوں سے بھتہ لینے کا قبیح  کام نہیں کرتی تھی۔لوگ پولیس پر اعتماد کرتے تھے۔گشتی پولیس قہوہ خانوں کے پاس سے گزرتی تو  قہوہ خانوں کے مالک انہیں چائے پلایا کرتے تھے۔
قہوہ خانوں میں لوگ  پیار و محبت کے ساتھ بیٹھتے ‘یہاں ان کی بیٹیوں اور بہنوں کے رشتے بھی طے ہوتے  تھے۔نماز پڑھنے کے لئے  جائے نماز اور صفیں رکھی ہوئی تھیں۔یہاں آنے والے نماز کی  ادائیگی کے ساتھ ساتھ ترجمے کے ساتھ قرآن بھی مل کر پڑھا  کرتے تھے اور قرآن کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔رمضان  المبارک میں قہوہ خانے ویران اور مساجد آباد ہو جاتی تھیں۔
پہلے یہ قہوہ خانے چھپروں اورچھوٹے کمروں میں ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعمیر میں بھی جدت کے رنگ نظر آنے لگے۔قہوہ خانوں کے مالکان  نے ان کی تعمیر پر توجہ دی  اور فرنیچر 
بھی تبدیل کیا اور انہیں پر کشش بنانے کی کوشش کی ۔ چائے کی اقسام میں بھی اضافہ کیا۔ٹیلی وژن  اور اخبارات میں جن چائے کے اشتہار  آتے تھے چائے کے وہ برانڈ ان  قہوہ خانوں میں بھی نظر آنے لگے لوگ مختلف اقسام کی چائے بہت شوق سے پیتے تھے۔بعض  قہوہ خانوں  میں  ذائقے  اور خوشبو کے لئے  چائے میں الائچی‘ دار چینی اور  سونف  وغیرہ بھی ڈالی جاتی تھی۔سردیوں میں بادام اور پستے والی  کشمیری چائے  لوگ بہت شوق سے پیتے تھے۔ان قہوہ خانوں میں  ایک کپ چائے کی قیمت زیادہ نہیں ہوتی تھی۔اس لئے زیریںور متوسط  طبقے  کے لوگ بھی یہاں چائے پینے آیا کرتے تھے۔اپنے قہوہ خانوں کو  مچھروں اور مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے  ان کے اندر  اور  باہرباقاعدگی سے اسپرے کیا جاتا تھا اور جالی کی کھڑکیاں اور دروازے بھی لگائے جاتے تھے۔
معاشرے میں ہونے  والی تبدیلیاں مثبت بھی ہوتی ہیں اور منفی بھی۔معاشرتی  تبدیلیوں  کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں بہت سے نئے رحجانات بھی سامنے آئے۔جن کے اثرات  قہوہ  خانوں میں بھی نظر آنے لگے ۔منشیات کا زیر زمیں چلنے والا کاروبار وبا کی صورت اختیار  کرتا گیا۔قہوہ خانے بھی اس سے نہیں بچ سکے۔راتوں رات امیر بننے کے  لالچ میں اور ایک سازش کے تحت منشیات فروشوں نے خصوصاً نوجوانوں کو اپنا ٹارگٹ بنایا۔منشیات فروش قہوہ خانوں میں بھی آنے لگے۔قہوہ خانے بھی ان کی  منفی’’  سرگرمیوں ‘‘سے  محفوظ نہیں رہ سکے۔یہ کاروبار صرف  قہوہ خانوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس میں جدت  آئی اورمنشیات فروشی کے لئے  شیشہ بار اور مختلف ناموں سے نئے کاروبار شروع ہوئے۔سر عام ہونے والے اس کاروبار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
اس وقت کراچی شہر اور گردو نواح میںکئی  قہوہ خانے موجود ہیں۔ جو رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔کراچی میں کوڈ19 کی دوسری  لہر  شروع ہو چکی ہے۔جو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک قرار دی جا رہی ہے۔کوڈ 19کے خطرناک نتائج سے بچنے کے لئے  حکومت کی جانب سے ایس او پیز جاری کر کے ان پر عمل درآمد کے لئے زور دیا جا رہا۔شادی ہالوں‘ مالز اور بازاروں کے اوقات مقرر کر کے انہیں رات دس بجے تک بند کرنے کا پابند کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں دیگر اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں لیکن  کراچی میں  جا بجا کھلے ہوئے قہوہ خانے ‘ پتھارے اور  فٹ پاتھوں پربیٹھ کر کاروبار کرنے والے رات  دس بجے کے بعد رات گئے تک  اپنا کاروبار جمائے ہوئے ہیں۔انہیں انتظامیہ اور پولیس کی  مبینہ سرپرستی حاصل ہے ۔ان مقامات پر آنے والے لوگوں کا نہ ہی ٹمپریچر  دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی  سینی ٹائزر استعمال کیا جاتا ہے  اور نہ ہی دیگر ایس او پیز کی پابندی کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں کراچی کے قہوہ  خانے اور پتھارے  بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔انہیں ایس او پیز کا پا بند بنا نے کی ضرورت ہے تا کہ کورونا کی بڑھتی ہوئی وبا کو روکا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن