پرائیڈ آف پرفارمنس عزیز میاں قوال کو بچھڑے 20 برس ہو گئے

پرائیڈ آف پرفارمنس عزیز میاں قوال کی 20 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، اپنی گائی گئی زیادہ تر قوالیوں کی شاعری خود تخلیق کرنے والے عزیز میاں آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

عزیز میاں 1942 کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے، انہیں پاکستان کے چند مقبول ترین قوالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

بارعب اور طاقتور آواز کے مالک عزیز میاں نہ صرف ایک عظیم قوال تھے بلکہ ایک عظیم فلسفی بھی تھے، جو اکثر اپنے لیے شاعری خود کرتے تھے۔ عزیز میاں نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور سے اردو اور عربی میں ایم اے کیا ہوا تھا۔

ان کا اصل نام عبد ا لعزیز تھا۔ “میاں” ان کا تکیہ کلام تھا، جو وہ اکثر اپنی قوالیوں میں بھی استعمال کرتے تھے، جو بعد میں ان کے نام کا حصہ بن گیا۔

انہوں نے اپنے فنی دور کا آغاز “عزیز میاں میرٹھی” کی حیثیت سے کیا۔ میرٹھی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد عزیز میاں نے بھارت کے شہر میرٹھ سے اپنے وطن کی طرف ہجرت کی تھی۔

انہیں اپنے ابتدائی دور میں “فوجی قوال” کا لقب ملا کیونکہ ان کی شروع کی سٹیج کی بیشتر قوالیاں فوجی بیرکوں میں فوجی جوانوں کے لیے تھیں۔ مختلف قسم کے معمولی الزامات پر انہیں کئی دفعہ گرفتار کیا گیا لیکن بعد ازاں بری کر دیا گیا۔

عزیز میاں کی مقبول ترین قوالیاں میں شرابی میں شرابی، تیری صورت اور اللہ ہی جانے کون بشر ہے شامل ہیں۔

عزیز میاں کا انتقال چھ دسمبر 2000 کو تہران (ایران) میں یرقان کی وجہ سے ہوا۔ انہیں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی برسی کے موقع پر ایرانی حکومت نے قوالی کے لیے مدعو کیا تھا۔

عزیز میاں کے دو بیٹے، عمران اور تبریز اپنے والد کے فن کو سنبھالے ہوئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن