کیا آپکو معلوم ہے کہ آج مورخہ6 دسمبر سے پاکستان میں’’ پاکستان واٹر ویک‘‘ یعنی ’’ ہفتۂ پانی‘‘ منایا جا رہا ہے؟ انٹر نیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ (IWMI) نامی ایک بین الاقوامی ادارہ حکومت پاکستان، پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز اور چند دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر یہ اقدام کر رہا ہے۔ یہ عالمی ادارہ دنیا کے تیس ممالک میں کام کر رہا ہے اور اسکے باقاعدہ دفاتر 13 ممالک میں موجود ہیں۔اس ادارے کے مطابق1980 ء کی دہائی تک پاکستان ایسے ممالک میں شامل تھا جن میں پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ سن 2000 ء تک پاکستان میں پانی کی کمی کے اثرات نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے اور اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو 2035 ء تک پاکستان پانی کی شدید کمی کے شکار ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے لیکن ہمارے پاس اس سلسلے میں قابل اعتماد، درست اور قابل عمل ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس ادارے کو تو پاکستان کو درپیش اس اہم ترین مسئلہ کا ادراک ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کتنے سنجیدہ ہیں اسکا اندازہ میڈیا اور حکومتی اور عوامی حلقوں میں اس ’’ ہفتہ‘‘ کو دی جانے والی اہمیت سے لگایا جا سکتا ہے۔
نہ جانے کیوں ہماری کسی حکومت نے زندگی اور موت کے اس مسئلے یعنی ’’ پانی ‘‘ کو آج تک سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بارشوں کے ساتھ ساتھ ِ کئی بڑے دریائوں اور ہمالیہ میں موجود بڑے بڑے گلیشیئرز سے بھی نوازا ہے ۔لیکن ہماری شدید بد قسمتی ہے کہ اس میسر پانی جیسی انمول نعمت کو ذخیرہ کرنے اور اس سے مکمل فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کرنے کے بارے میں ہم آج تک سنجیدہ نہیں ہوئے۔ اس وقت ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لیے صرف تین بڑے ڈیم ہیں۔ منگلا 1967ئ، تربیلا 1978ء اور چشمہ 1971ء میں مکمل ہوا۔ 1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے وقت پاکستان کے دریائوں میں117 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا تھا اور اب ہمارے دریائوں میں 80 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے اور اس میں سے بھی زیادہ تر ہم ضائع کر دیتے ہیں۔دنیا کے اکثر ممالک اپنے دریائوں میں آنے والے پانی کا چالیس فیصد تک ذخیرہ کر لیتے ہیں جبکہ پاکستان اپنے دریائوں میں آنے والے پانی کا زیادہ سے زیادہ دس فیصد ذخیرہ کرتا ہے اور ہمارے موجود آبی ذخائر میں صرف تیس دن کی ضرورت کے لیے پانی ذخیرہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت اپنی ضرورت کے نو ماہ سے زائد اور امریکہ اپنی تیس ماہ کی ضرورت کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پیدا کر چکا ہے۔ مختلف قدرتی ذرائع سے ہر برس پاکستان میں 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے۔ لیکن ہم اس میں سے صرف 13.4 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال یا ذخیرہ کرتے ہیں باقی تمام پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ سموگ کی طرح ہم پانی کی اس کمی کا سارا ملبہ بھی بھارت پر ڈال دیتے ہیں کہ بھارت سندھ طاس معاہدے پر عمل نہیں کر رہا۔ بھارت جو ڈیم بنا رہا ہے ان میں سے بہت سے بلاشبہ اس معاہدے کے خلاف اور غیر قانونی ہیں ، لیکن ایک تلخ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا بھارت نے ہمارے ہاتھ پکڑ رکھے ہیں کہ ہم ڈیم نہ بنائیں؟ یہ ہماری ذمہ داری تھی ، اور ہے کہ ہم اپنی موجودہ اور مستقبل کی ضرورت کے مطابق ڈیم بنائیں۔ دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کا فیصلہ 2006 ء میںکیا گیا تھا اور اب خدا خدا کر کے اسکی تعمیر شروع ہوئی ہے۔ مہمنڈ ڈیم بھی اپنی تعمیر کے ابتدائی دور میں ہے۔کالا باغ ڈیم کی بات کریں تو اس ڈیم کی تمام منصوبہ بندی اور پیپر ورک 1963ء میں مکمل ہو چکا تھا اور اسکو تعمیر کرنے کے لیے صرف چار برس کا عرصہ درکار ہے لیکن یہ منصوبہ ہمارے سیاستدانوں کی نا سمجھی اور ذاتی مفادات کی نظر ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ اور ’’ ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی رپورٹوں کے مطابق 2025ء تک پاکستان میں قحط کی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق 2025ء میں پاکستان میں فی کس500 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہو گا جبکہ قحط اور بھوک کے لیے مشہور ملک ’’ صومالیہ‘‘ میں بھی فی کس 1500 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔ یعنی ہمارے حالات صومالیہ سے بھی تین گنا زیادہ خراب ہو سکتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ایسے ممالک کی فہرست، جن میں مستقبل قریب میں پانی کا شدیدبحران پیدا ہو سکتا ہے میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ڈی پی ہو یا ’’پاکستان کائونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘‘ پی سی آر ڈبلیو آر سب ادارے کئی دہائیوں سے ہمیں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں پاکستان پانی کی شدید کمی کا شکار ہو جائے گا۔ مگر نہ تو کسی حکومت پر آج تک کوئی اثر ہوا ہے اور نہ ہی ہماری عوام اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھ رہی ہے۔ پی سی آر ڈبلیو آر کی پرانی رپورٹوں میں اس سلسلے میں پہلی سنجیدہ اور بڑی وارننگ 1990ء میں ملتی ہے۔ 2005 ء میں پاکستان پانی کی کمی کا باقاعدہ شکار ہو گیا تھا ، جب ہم نے پانی کی کمی کی ''Scarcity Line"کو ٹچ کر لیا تھا۔ اگر کسی ملک میں پانی کی فی کس مقدار دستیاب مقدار ایک ہزار کیوبک میٹر سالانہ سے کم ہو تو اس ملک میں پانی کی سنجیدہ کمی تصور کی جاتی ہے ۔ پاکستان میں اس وقت فی کس پانی کی دستیاب مقدار 1017 کیوبک میٹر سالانہ ہے۔ یاد رہے کہ پانی کی دستیاب مقدار میں گزشتہ برسوں میں پانچ تا دس فیصد سالانہ کی رفتار سے کمی آ رہی ہے۔
پانی کے ذخیرہ کرنے کی کافی صلاحیت نہ ہونے کے علاوہ جو عوامل صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہے ہیں ان میں پانی کے استعمال کے بارے میں انتظامی مسائل، آبادی میں ہوشربا اضافہ ، آبادی کا شہروں کی جانب منتقل ہونا اور عوام میں پانی ضائع کرنے کی عادت اہم ہیں۔ گلوبل وارمنگ کا کردار الگ ہے۔ ہم میسر پانی کا 80 تا 95فیصد زراعت کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن زراعت کے پرانے طریقوں، کچے کھالوں اور ٹوٹے پھوٹے نہری نظام کی وجہ سے اس پانی کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ دنیا میں رائج آبپاشی کے جدید طریقوں یعنی لیزر لیولنگ، سپرنکلر سسٹم اور ڈرپ سسٹم اپنا کر پانی میں پچاس فیصد سے زیادہ بچت کی جا سکتی ہے ۔ ہمارے پانی کی تقسیم کے نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ غیر مناسب ’’ وارہ بندی‘‘ کی وجہ سے کئی مرتبہ کسان کو پانی اس وقت دیا جاتا ہے جب اسکو اسکی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ نہری پانی اور ٹیوب ویل کے پانی کی لاگت میںغیر حقیقت پسندانہ فرق ہے لیکن اسکے باوجود اس وقت ہم اپنی ضرورت کا زیادہ تر پانی زیر زمین سے حاصل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر بھی ختم ہو رہے ہیں ۔ حکومت بلکہ موجودہ حالات میں ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ اس اہم ترین مسئلہ کے حل کے لیے جنگی بنیادوں پر فوری عملی اقدامات کا آغاز کرے۔ ساتھ ہی ضروری ہے کہ جن سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے ذاتی مفادات کے لیے پاکستان کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پھانسی کی سزا دی جائے۔