افغانستان ایک انسانی المیے کے دہانے پر

ہمسایہ برادر اسلامی ملک افغانستان ایک مرتبہ پھر غیر یقینی اور گومگو کی کیفیت سے دو چار ہے، کئی دہائیوں کی خانہ جنگی اور پے درپے غیرملکی جارحیت سے تباہ حال ملک آج پھر تاریخ کے ایک انتہائی دہانے پر کھڑاہے، اگست2021ء میں طالبان کے پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے لے کر آج تک صورتحال انتہائی غیریقینی کا شکارہے،20سال قبل ستمبر2001ء میں نیویارک کے ورلڈٹریڈسنٹرکی تباہی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کردیاجس کے بعد گزشتہ بیس سالوں تک غیرملکی افواج افغانستان میں مقیم رہیں، ملک اور معاشرے کو تباہ کردیاگیا، بظاہر طالبان اور شدت پسندوں کا خاتمہ بتایاگیا اور فساد افغانستان کی سرزمین سے دنیا میں دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کو بتایاگیا، مگر اصل حقائق کچھ اور تھے جس سے پوری دنیا واقف ہے بہرحال اس سال اگست میں امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوا جس کے بعد طالبان نے پورے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد وہاں کے حالات اب بہتر ہوجائیںگے اورافغان عوام کو جنگ، قتل وغارت، خوف، دہشت گردی اور تباہی سے نجات مل گئی، جنگ اور قتل وغارت تو کافی حد تک ختم ہوگئی مگر افغان عوام کی آزمائش ختم نہیں ہوسکی، اس مرتبہ آزمائش معاشی مشکلات کی صورت میں ہے جس کی وجہ سے عوام زندگی کی بنیادی سہولیات جس میں صحت، تعلیم، روزگار اور کھانے پینے کی اشیاء شامل ہیں سے محروم ہیں، صورتحال اتنی تیزی سے بگڑ رہی ہے کہ اگر فوری طور پر ضروری اقدامات نہ کئے گئے تو افغانستان ایک بہت بڑے انسانی المیے سے دوچار ہوسکتاہے جس کی ذمہ داری بلاشبہ امریکہ اور مغربی ممالک پر ہوگی، اقوام متحدہ بھی انہی ممالک کے ہاتھوںمجبور ہے جس کی وجہ سے بھی اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصرہے۔ دنیا امریکہ کے ایماء پر طالبان کی حکومت کو قبول کرنے سے انکاری ہے جس کی وجہ سے طالبان کی طرف سے خواتین اور بنیادی انسانی حقوق کو پورانہ کرنے کو بتایاجارہاہے باوجود اس کے کہ طالبان حکومت کی طرف سے پوری یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ وہ بتدریج دنیا کے تحفظات دورکرینگے۔ذاتی عناد اورپسند ناپسند کی بنیاد پر چار کروڑ افغان عوام کی زندگیوں سے کھیلنا انسانیت دشمنی کی نمایاںمثال ہے۔
آج دو کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ افغان جوکہ ملک کی مجموعی آبادی کے پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہیں خوراک کی شدید قلت کا شکارہیں، اگر خوراک اور اویات کی فراہمی کا فوری بندوبست نہ کیاگیا تو دس لاکھ سے زائد افغان بچے موت کے منہ میں جاسکتے ہیں، اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں، گزشتہ چار ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ڈاکٹر، انجینئرز، اساتذہ اور سرکاری اداروںمیں کام کرنے والے ملازمین سڑکوں کے کنارے اپنے گھر کی اشیاء بیچنے پرمجبور ہوچکے ہیں۔کچھ ایسی رپورٹس بھی سامنے آرہی ہیں جن کے مطابق لوگ اپنے بچے بیچنے پرمجبور ہیں تاکہ خاندان کے دوسرے افراد کیلئے خوراک کا بندوبست کرسکیں۔ ملک میںموجود صحت اور تعلیم کی سہولیات اس وجہ سے کام نہیں کرپارہیں کہ ملازمین تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے کام کرنے کو تیار نہیں جبکہ ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہسپتال عملی طور پر غیرفعال ہوتے جارہے ہیں۔150کے قریب میڈیا سے منسلک ادارے بندہوچکے ہیں جس کی وجہ سے تقریباً پندرہ سو لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق اگر صورتحال ایسے ہی رہی تو ملک میں غربت کی شرح ایک سال کے اندر98%تک پہنچ سکتی ہے۔امریکہ میں افغان اورڈبلیو ایف پی جیسے ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصرہیں کیونکہ امریکہ کے ایماء پر افغانستان بین الاقوامی پابندیوںکی زد میں ہے۔
2020ء میں دوحہ معاہدے کے بعد امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کو حتمی شکل دی گئی۔ آج دنیا کو طالبان سے دور رکھنے والے امریکہ نے خود سب سے پہلے طالبان کے وجود کو تسلیم کیا اور ان کے ساتھ مذاکرات کئے جس کی بنیاد پر دونوں کے مابین ایک معاہدہ طے پایا۔ امریکہ نے اس معاہدہ کے تحت اپنے لیے مراعات حاصل کیں جس مین امریکی افواج کا محفوظ انخلاء اور افغان سرزمین کاکسی کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونا شامل تھا۔امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے اور امریکی انخلاء کے بعداشرف غنی کی افغان حکومت یکدم دنوںمیں زمین بوس ہوگئی۔(جاری)

ای پیپر دی نیشن