آئندہ برسوں میں معاشی مسئلہ واجب الادا قرضوں کی واپسی ہے‘ ماہرین

لاہور( این این آئی)پاکستان کے بڑے بروکریج ہائوس ٹاپ لائن سیکورٹیز کی جانب سے پاکستان کی معاشی صورتحال کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ نہیں بلکہ آئندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں کی واپسی ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر 25 سال بعد ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار ہوتا ہے ،2008کے بعد رواں مالی سال 23-2022 بھی بڑے معاشی بحران کا منظر پیش کررہا ہے۔رپورٹ میں آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئندہ تین سال یعنی مالی سال 2023 تا مالی سال 2025 کے دوران پاکستان کو 73 ارب ڈالر قرض کی واپسی کرنی ہے جبکہ حال یہ ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 7 سے 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔پاکستان کو ان واجب الادا قرضوں کی واپسی کے لئے سعودی عرب کی طرح چین سے بھی قرضوں کی واپسی ری شیڈول کرنی پڑے گی جبکہ پیرس کلب سمیت دیگر انٹر نیشنل قرضوں کی واپسی میں مہلت کے لئے کوشش کرنی پڑے گی۔ٹاپ لائن سیکورٹیز کے مطابق گزشتہ 7 سال میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، مالی سال 15-2014 میں بیرونی قرضوں کی مجموعی مالیت 65 ارب ڈالر تھی جو جی ڈی پی کا 24 فیصد بنتی ہے رواں مالی سال یہ قرضے 130 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو جی ڈی پی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ان بیرونی قرضوں کے ساتھ اندرونی قرضے بھی شامل کئے جائیں تو پاکستان کے مجموعی قرضے 60 ہزار ارب روپے بنتے ہیں جو جی ڈی پی یعنی مجموعی ملکی پیداوار کا 90فیصد بنتا ہے، مالی سال 15-2014 یعنی سات سال پہلے یہ قرضے 20 ہزار ارب روپے کے تھے جو جی ڈی پی کا 72 فیصد بنتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں میں 30 فیصد چینی قرضے ہیں جس کے لئے پاکستان کو چین سے تعاون حاصل کے لئے کوششیں کرنی پڑیں گی جب کہ ساتھ ہی آئی ایم ایف سے بھی آئندہ تین سے پانچ سال میں 30ارب ڈالر درکار ہوں گے۔رپورٹ میں موجودہ سیاسی عدم استحکام کو بھی خطرناک قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بروقت معاشی اقدامات تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...