سندھ کلچر ڈے دھوم دھام سے منایا گیا
یہ ایک اچھی بات ہے۔ ہر صوبے کو حق ہے کہ وہ اپنا کلچر ڈے جسے ہم یوم ثقافت کہہ سکتے ہیں، بڑے اہتمام سے منائے ۔ اس طرح ہم اپنی مٹتی ہوئی ثقافتی اقدار کو یاد کر کے انہیں زندہ رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ معاشرے میں بہت سی ایسی ثقافتی و تہذیبی روایات جو ہماری پہچان تھیں آج کل جدت کے نام پر اپنا تشخص کھو رہی ہیں۔ ان مٹتی روایات کو بچانا ہمارا فرض ہے۔ صرف ریلیاں نکال کر سندھی اجرک اور ٹوپی پہن کر ہمیں مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔سندھ صوفیا کرام کی محبت کی میٹھی زبان بولنے والوں کی سرزمین ہے۔ ہمیں اپنی روایتی ثقافت کو اور اس کی روایات کو زندہ کرنا ہے۔ ہماری سندھی ثقافت ہو یا پنجابی، پشتو ہو بلوچی اس میں بزرگوں اور عورتوں کا احترام، بچوں سے شفقت، مہمان نوازی، ہمسائیوں سے محبت اور غریبوں کی مدد کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہمیں اپنے ان رویوں، ثقافتی اقدار کو بھی بہرصورت زندہ رکھنا ہے۔ بے شک سندھی اجرک اور ٹوپی سندھ کی پہچان ہے۔ اسی طرح کلاہ اور واسکٹ خیبر پی کے والوں کی۔ بھاری پگڑی اور شلوار بلوچستان کی جبکہ روایتی پگ اور دھوتی پنجاب کی پہچان ہے۔ یہ سب دراصل پاکستان کے چمن میں بہار دکھلانے والے وہ پھول ہیں جو اس چمن کی سیر کرنے والوں کے دلوں کو لبھاتے ہیں۔ یہاں کے ثقافتی رنگا رنگ کو نمایاں کرتے ہیں۔ علیحدہ علیحدہ رنگ اور خوشبو کے باوجود یہ سب پھول ایک گلدستے میں جمع ہو کر پاکستان کا حسین چہرہ بن جاتے ہیں۔ ہماری دعا بھی یہی رہتی ہے۔
زمیں کی گود رنگ سے امنگ سے سجی رہے
خدا کرے یہ کہکشاں یونہی سجی رہے
تو آئیں کیوں نہ ہم لباس کے علاوہ اپنے کردار و افعال سے بھی دنیا کو متاثر کریں اور اپنی اچھائیوں کی داد سمیٹیں ۔
٭٭٭٭
مدھیہ پردیش میں شادی میں بن بلائے مہمان کو برتن دھونے پڑے
ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکتا ورنہ کم از کم برتن دھلوانے کے پیسے بچ سکتے تھے کیونکہ ہمارے ہاں اب جدید دور کے مطابق شادیوں کے لیے نہ ٹینٹ لگتے ہیں نہ کھانے پکانے والے آتے ہیں نہ برتن دھونے والے۔ یہ سارے چھوٹے بڑے کام جنہیں ہم اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اب بڑے بڑے کروڑوں پتی شادی ہالز والوں نے سنبھال لیے ہیں۔ نائی یا باورچی بھی وہی ہوتے ہیں برتن دھونے اور لگانے والے بھی وہی۔ کرسیاں میز بھی وہی لگاتے ہیں اور صفائی ستھرائی کے علاوہ ویٹر بھی انہی کے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی نہ سمجھے کہ یہ کام مفت میں وہ کرتے ہیں۔ یہ ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ وہ شادی کے ہر فنکشن کا لاکھوں روپے لیتے ہیں۔ کئی مرتبہ تو یہ اونچی دکان اور پھیکا پکوان بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ان ہالز میں مفت بربن بلائے اچھا کھانے کے شوقینوں کا داخلہ ذرا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم پھر بھی کئی خوش پوش کھلی آنکھوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے اور گھس آتے ہیں۔ اب گلی محلوں میں رونق کا باعث بننے والی شادیاں، ان کے ٹینٹ، موسیقی کا شور، حسین پیراہن اور رنگ و نور کا سماں سمٹ کر شادی ہالوں تک محدود ہو گیا مگر دیہات میں ابھی بھی یہ سسٹم قائم ہے۔ وہاں بھی بہت سے بن بلائے مہمان آ ہی جاتے ہیں جن میں سے اکثر کی پٹائی بھی ہوتی ہے۔ مگر خوشی کے مارے عام طور پر پاکستانی بڑا دل ہونے کی وجہ سے انہیں معاف کر دیتے ہیں جبکہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا وہاں پکڑے جانے پر شادی کے سینکڑوں جوٹھے برتن دھو کر ہی جان چھوٹتی ہے۔ اتنا کھایا نہیں ہوتا جتنی مشقت لی جاتی ہے۔ یہی کچھ گزشتہ روز مدھیہ پردیش میں ہوا جس کی ویڈیو وائرل ہونے پر کافی لوگوں نے تاسف کا بھی اظہار کیا ہے۔
٭٭٭٭٭
عمران 30 دسمبر تک الیکشن کی تاریخ لے گا یا اسمبلیاں توڑ دے گا۔ شیخ رشید
جی تو نہیں چاہتا کہ بار بار شیخ چلی کی کہانیوں کی طرح شیخ رشید کی پیشگوئیوں کا ذکر کریں مگر کیا کریں۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں وہ بھی پریس کانفرنس بلا کر یا چھوٹی سی جلسی کر کے کہ لاکھ نظرانداز کرنے کے باوجود اس پر بات کرنی پڑتی ہے۔ ویسے جب سے گیٹ نمبر 4 بند ہوا ہے شیخ جی کی تمام کہانیاں اور فلسفہ فلاپ ثابت ہوا ہے۔ کیا کچھ نہ کہا تھا شیخ رشید نے مگر کامل آٹھ ماہ ہو چکے ہیں۔ ان کی کوئی ایک بات بھی درست نہیں نکلی۔ اب تو وہ تنگ آ کر گیٹ نمبر 4 پر چھپ چھپ کر پتھر مار کر بھاگ جاتے ہیں اور یوں اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آ رہا۔ جس سے شیخ رشید اور ان کے قائد و رہنما کاپارہ ہائی رہنے لگا ہے۔ اب پھر نجانے کس ترنگ میں آ کر وہ اپنے رہبر کو ہرکولیس بنانے پر تلے ہیں۔ اب وہ بھول رہے ہیں کہ 30 دسمبر کو کیا، مارچ 2023ء تک بھی کوئی الیکشن کی تاریخ نہیں لے سکتا۔ بعد میں خود بخود الیکشن کی تاریخ طے ہوئی تو نگران سیٹ اپ آکر الیکشن کرائے گا۔ رہی بات خیبر پی کے اور پنجاب اسمبلیاں توڑنے کی تو یہ بھی نہیں ہو گا کیونکہ اس طرح اسلام آباد تک آسان رسائی کا معاملہ تو ختم ہوا۔ ان صوبوں میں اگر دوسرے آ گئے یا نگران سیٹ اپ قائم ہوا تو الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کو فری ہینڈ نہیں ملے گا۔ محمود خان اور پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ والی سہولتیں ختم ہوئیں تو غلام محمود ڈوگر بھی رات گئی بات گئی ہو جائیں گے اس لیے فی الحال شیخ رشید کی اس نئی بڑھک نما کہانی میں زیادہ دم نہیں لگتا۔ وہ کسی کو مولا جٹ نہیں بناسکتے نہ کوئی اسمبلیاں توڑنے پر تیار نظر آتا ہے۔
٭٭٭٭
والدہ کی مدد کرنے پر جڑواں بہنوں نے ایک ہی شخص سے شادی کر لی
ماں باپ کی خدمت خوش قسمت اولاد کے حصے میں آتی ہے۔ ہمارے کیا دنیا بھر میں آج بھی بلاتفریق مذہب و ملت ہر قوم میں ہر خطہ میں والدین کے ساتھ اچھے سلوک کی قدر کی جاتی ہے ایسے لوگوں کی تعریف و توصیف ہوتی ہے ۔ مگر اس کے ساتھ جو عجیب و غریب قسم کے کام ہوتے نظر آ رہے ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔ انڈونیشیا کے دور دراز جزائر میں ہر سال والدین کی قبر کھول کر ان کے مردہ جسموں کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ممالک میں انہیں شیشے کی قبر میں رکھا جاتا ہے تاکہ دیکھا جا سکے۔ کئی جنونی جذباتی تو والدین کی نعش کو فریزر میں محفوظ کرتے بھی پائے گئے ہیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگ ان کی یاد میں عبادت گاہ، شفاخانہ ، سڑک ، پل، سکول بناتے۔ مگر یہ جو بھارت میں ان جڑواں بہنوں نے سمجھ سے بالاتر کام کیا ہے وہ انہونا ہے۔انہوں نے اپنی ماں کی ایام بیماری و لاچاری میں خدمت کرنے والے نوجوان سے بیک وقت شادی کر لی ہے جو حیران کن ہے۔ کیونکہ خود ہندو دھرم میں بھی اس کی اجازت نہیں نہ بھارت کے قانون میں اس کی گنجائش ہے جس کے بعد اس کیخلاف مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ الہامی آسمانی مذاہب کے علاوہ بھی دو بہنوں سے بیک وقت شادی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ اسلام نے تو خاص طور پر اس فعل کی ممانعت کی ہے۔ ہندومت میں تو دو شادیوں کا تصور ہی نہیں جن مشہور بھارتی شخصیات نے دوسری شادی کی ہے انہوں نے اسلام قبول کر کے دوسری شادی رجسٹر کرائی ہے۔ چاہے یہ قانون سے بچنے کے لیے کیوں نہ ہو۔ اب اس انجینئر صاحب کو اگر ماں کی خدمت کا صلہ دینا تھا تو ان میں سے ایک بہن خود شادی کر لیتی دوسری وہ اپنے بھائی سے یا کسی اچھے شخص سے بیاہ دیتی۔ خود شادی کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ یہ ماں کی خدمت کم اور اپنی ذاتی محبت و دلچسپی کی مذہب سے بغاوت والی داستان زیادہ نظر آتی ہے۔
منگل،11 جمادی الاوّل 1444،6دسمبر2022ء
Dec 06, 2022