سیکرٹری جنرل اوآئی سی کا مسئلہ کشمیر کے  حل کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کا ٹھوس عندیہ


کشمیر کمیٹی جدہ اور جموں و کشمیر کمیونٹی اوورسیز کے نمائندہ وفد نے گزشتہ روز کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مسعود احمد پوری کی قیادت میں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کی جس میں سیکرٹری جنرل کے رواں ماہ شروع ہونیوالے دورۂ پاکستان کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ وفد نے سیکرٹری جنرل اوآئی سی کا اس حوالے سے خصوصی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی عالمی برادری اور انسانی حقوق کی علاقائی اور عالمی تنظیموں کے سامنے حمایت کی ہے۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل اوآئی سی نے یقین دلایا کہ او آئی سی بھارت کے غیرقانونی قبضہ والے کشمیر میں جاری بھارتی مظالم رکوانے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریگی۔ اوآئی سی ستاون مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے جس کا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کا عندیہ خوش آئند ہے۔ کشمیریوں کے نمائندہ وفد نے توقع ظاہر کی کہ ہمیشہ کی طرح آئندہ بھی او آئی سی کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق کی حمایت جاری رکھے گی۔ 
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ پون صدی سے جاری مسئلہ کشمیر بھارتی ہٹ دھرمی‘ مظالم اور پانچ اگست 2019ء کے یکطرفہ اقدام کے باعث گھمبیر اور پیچیدہ تر ہوا ہے اور دنیا کی توجہ اس ایشو پر مرکوز ہوئی ہے کہ یہ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور کشمیر کے علاوہ پاکستان کیخلاف بھی اسکے جارحانہ اقدامات کے باعث علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے مستقل خطرے کا باعث بنا ہے۔ بھارت کی مودی سرکار کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کے نتیجہ میں بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کے جموں اور لداخ کے دونوں حصوں کو الگ الگ حیثیت میں بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنایا گیا اور نریندر مودی کی جانب سے بڑ ماری گئی کہ انہوں نے کشمیر کا مسئلہ مستقل طور پر حل کر دیا ہے جبکہ اب مودی سرکار کی شہ پر بھارتی عسکری قیادت کی جانب سے یہ بڑ بھی ماری جارہی ہے کہ بھارتی افواج آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کا قبضہ بھی پاکستان سے چھڑوائیں گی۔ انکے بقول یہ سارے علاقے کشمیر کا حصہ ہونے کے ناطے بھارت میں ہی شامل ہیں۔ 
بھارتی عسکری قیادت کی اس بڑ اور درفنطنی کا دو روز قبل پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے دوٹوک اور مسکت جواب دیا کہ افواج پاکستان وطن عزیز کے چپے چپے کی حفاظت و دفاع کی مکمل صلاحیت اور استعداد رکھتی ہیں اور ملک کا دفاع توڑنے کے عزائم رکھنے والے دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑیگی۔ درحقیقت یہ بھارتی گیدڑ بھبکیاں قیام پاکستان کے وقت سے جاری ہیں جس نے اپنی افواج کے ذریعے کشمیر کے ایک بڑے حصہ پر اپنا ناجائز اور غیرقانونی تسلط جما کر اس پورے خطے کے امن و سلامتی پر خطرات کی تلوار لٹکا دی۔ بھارت کو درحقیقت امریکہ‘ برطانیہ جیسی عالمی طاقتوں کی شہ اور انسانی حقوق کے چیمپئن عالمی اداروں کی بے عملی کے باعث ہی اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں تقویت حاصل ہوئی تھی۔ 
یہ حقیقت اقوام عالم میں کسی سے مخفی نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نوشتۂ دیوار تھا جبکہ کشمیری عوام نے خود بھی اپنے لیڈر غلام عباس کی قیادت میں اپنے مستقبل کا پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں تعین کرلیا تھا جسے سبوتاژ کرنے کیلئے بھارت کی ہندو بنیاء لیڈرشپ نے ایک سازش کے تحت مہاراجہ کشمیر کے نام پر کشمیر کو بھارت کے ہاتھ فروخت کرنے کا ایک جعلی معاہدہ گھڑ لیا اور کشمیر پر اپنے دعاوی شروع کردیئے جبکہ اس معاہدے کا فی الحقیقت کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اسی فرضی معاہدے کی بنیاد پر قیام پاکستان کے فوری بعد بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں داخل کیں اور اسکے بڑے حصے پر اپنا تسلط جمالیا۔ اگر اس وقت پاکستان کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی زیرکمان پاکستانی افوج کو کشمیر بھیج کر اس کا بھارتی فوج سے قبضہ چھڑانے کی کارروائی عمل میں لے آتے تو کشمیر کا تنازعہ کبھی پیدا ہی نہ ہوتا مگر جنرل گریسی نے قائداعظم کے احکام کی تعمیل نہ کرکے درحقیقت پاکستان کو کمزور رکھنے کا برطانوی وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کا ایجنڈا پورا کیا چنانچہ اسی تناظر میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ کشمیر کا مسئلہ خود برطانیہ نے پیدا کیاہے جس کے پاکستان کو کمزور رکھنے کے اپنے مقاصد تھے مگر برطانیہ اور بھارت کے اس مشترکہ مقصد کا نتیجہ پورے خطے میں بھارت کے ہاتھوں امن و استحکام کی بربادی کی صورت میں سامنے آیا۔ چنانچہ گزشتہ 75 سال سے بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کے باعث علاقائی اور عالمی امن و سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اپنے دونوں فورموں جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں درجن بھر قراردادیں منظور کیں جن میں کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے بھارت سے اقوام متحدہ کے کمیشن کے ماتحت مقبوضہ وادی میں استصواب کا اہتمام کرنے کی ہدایت کی گئی مگر بھارت نے ان قراردادوں کے باعث کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اپنالی  اورپاکستان کے ساتھ مخاصمت اور اسکی سلامتی کیخلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انہی سازشوں کے تحت بھارت نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں‘ اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا جس کیلئے اس نے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور پاکستان کیخلاف آبی دہشت گردی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس کیلئے اسے امریکہ کی کھلی حمایت حاصل ہو گئی اور نمائندہ عالمی اور علاقائی ادارے بھی بھارت کے ہمنوا نظر آئے۔ 
اس سے بھارت کے حوصلے تو ضرور بلند ہوئے ہیں مگر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے بھارت کے ہاتھوں خطرات انتہاء تک جا پہنچے ہیں چنانچہ بھارت کے ہاتھوں اس کرۂ ارض کی تباہی بعید ازقیاس نہیں۔ اگر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اور علاقائی اداروں کو اقوام عالم کی سلامتی مقصود ہے تو انہیں بھارت کی جنونی توسیع پسندانہ ہاتھ روکنے کیلئے بہرحال مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا جس کیلئے آج وہ متحرک بھی نظر آتے ہیں اور بھارت کے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کی مذمت کے علاوہ بھارت سے کشمیر کی پانچ اگست سے پہلے والی پوزیشن بحال کرنے کا تقاضا بھی کیاجا چکا ہے۔ اس کیلئے سلامتی کونسل کے علاوہ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بھی فعالیت کے ساتھ مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل کا مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کا عندیہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اگر اوآئی سی کے رکن 57 ممالک اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر باہم متحد ہو کر مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کیلئے بیک آواز ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل پر مجبور نہ کیا جاسکے۔ 

ای پیپر دی نیشن