سیلاب کی تباہ کا ریاں، جتنا ہو سکا کیا،مزید ساڑھے 3سو ارب درکار:وزیر اعلٰی سندھ کا ایوان میں اظہار خیال


کراچی (نیوز رپورٹر) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ماضی میں بھی سیلاب آتے رہے ہیں لیکن اس سال آنے والا سیلاب غیر معمولی تھا جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی اور جانی و مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا۔وزیر اعلی سندھ نے یہ بات پیر کو سندھ اسمبلی کے ایوان میںمون سون کی بارشوں ، سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس حوالے سے حکومت سندھ کے اقدامات پر ایک تحریک التو اپر تقریر کرتے ہوئے کہی ۔سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں ایک گھنٹہ 25 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تھا۔ ایوان بارشوں اور سیلاب سے متعلق اس تحریک التوا پر تین روز تک بحث کرے گا۔وزیر اعلی سندھ نے خطاب میں کہا کہ ہماری تاریخ میں ایسے سیلاب پہلے کبھی نہیں آئے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں اس بات کے گواہ ہیں۔اس صورتحال سے صرف سندھ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا نقصان ہوا ہے ۔ 38لاکھ ایکٹر پر فصلیں تباہ ہوئیں۔8سو افراد جاں بحق ہوئے۔20 لاکھ 44ہزار گھر متاثر ہوئے۔80 فیصد کچے گھر تھے۔4لاکھ 36 ہزار مویشی ہلاک ہوئے ،111بلین کا روڈ سیکٹر کا نقصان ہوا۔صحت ، اسکول کی عمارتیں بھی تباہ ہوئی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ تباہی تو ہوگی اب سوال یہ پید اہوتا ہے کہ بحالی کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ وزیر اعلی نے کہا کہ بحالی کے کاموں کے سلسلے میں بلاول بھٹو اور وزیر اعظم نے بہت کوششیں کی ہے۔ان کی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل آئے ۔وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ حکومت سندھ متاچڑہ علاقوں سے پانی نکالنے کی اب تک کوشش کررہی ہے کیونکہ 2لاکھ 40ہزار ایکٹر پر ابھی بھی موجود پانی ہے ۔رائٹ بینک پر پانی موجود ہے جبکہ لفٹ بینک پر 44 ہزار ایکٹر پر ابھی بھی پانی ہے۔وزیر اعلی نے کہا کہ خیر پور، قمبر شہداد کوٹ مختلف اضلاع میں ابھی بھی پانی ہے۔ حکومت سندھ نے جتنا زیادہ سے زیادہ ہوسکا وہ کیا۔سندھ کے ہر ضلع میں دو دو بار گیا ہوں۔وزیر خارجہ نے اپنے غیر ملکی دورے ختم کئے ۔ ہم نے 8لاکھ 36ہزار ٹینٹ دئیے۔جن میں6لاکھ سندھ حکومت کے تھے ، باقی ٹینٹ این ڈی ایم اے اور بحریہ اور فضائیہ کے بھی تھے۔سندھ میں 23لاکھ 89ہزار راشن بیگ دئیے گئے۔جن میں سے 17لاکھ سندھ حکومت نے دئیے۔8ہزار این ڈی ایم ، ایک لاکھ غیر ملکی راشن بیگز دئیے گئے۔ اسی طرح متاثرین میں 12لاکھ 87 ہزار سے زائد کمبل تقسیم کیے گئے۔ریلیف کا کام ابھی تک چل رہا ہے ۔ مراد علی شاہ نے بتایا کہ حکومت سندھ نے 2.7 ملین ایکٹر پر گندم کاشت کرنے کا ٹارگٹ رکھا ہے۔یہ ٹارگٹ پورا کریں گے۔ انہوں نے بتا یا کہ سیلاب کے بعد حکومت سندھ نے ترقیاتی بجٹ میں 87ارب کی کٹوتی کی ہے۔اس میں سے45ارب روپے کی بچت کرنے کا پلان ہے ۔وزیر اعلی نے کہا کہ ہم ورلڈ بینک سے بات کررہے ہیں۔گھر بنانے کے لیے ساڑھے تین سو ارب درکا رہیں۔بحالی کے لئے فنڈز کی فراہمی کا معاملہ ڈونر کانفرنس میں رکھیں گے۔ ہم نے این جی او ز کے ساتھ ملکر کام کیا ہے ،ایک ایک گھر پر گئے ہیں۔جوائنٹ سروے کا کام مکمل ہوچکا ہے ۔ گھروں کی ازر نو تعمیر کے لئے 50ارب سندھ حکومت دے گی۔ہم فی گھر تین لاکھ روپے دیں گے ۔اس منصوبے کے لئے مختلف این جی اوز کی خدمات حاصل کی ہیں۔ جب وہ بتائیں گی کہ کتنا گھر بن گیا ہے پھر دوسرے قسط دیں گے۔جو گھر تباہ ہووہ 80 کچے تھے ،اب ہم چاہتے ہیں پکے گھر بنیں۔وزیر اعلی نے کہا کہ آب پاشی کی نظام۔کی بحالی کے لیے کام شروع ہوچکا ہے۔مختلف پلان بنائے ہیں۔200 ملین ڈالر ہمیں ایشین ترقیاتی بینک دے رہا ہے۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہم پر تنقید کریں لیکن یہ ایک بڑا سانحہ تھا۔یہ نہ کہیں۔ کہ ڈوبویا گیا ہے پھر عام لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں۔موسمی تبدیلی کے باعث یہ نقصان ہوا ہے ۔عوام کو حقیقت بتائی جائے اگر ہمارے ملک سے بیرون ملک غلط باتیں جائیں گی تو اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے پیں۔ جھوٹا پروپیگنڈے سے آپ پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے۔جیسے ماضی میںنقصان پہنچاتے رہے ہیں۔پیپلز پارٹی عوام میں ہے اور خدمت کرتے رہیں گے۔ 2010کے سیلاب کی وجہ سے ہم 2013 میں منتخب ہوئے۔اگر بار پھر سندھ کے عوام ہمیں منڈیٹ دیں گے ۔ وزیر اعلی نے کہا کہ ہماری کوتاہیاں ضرور ہوں گی لیکن نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک التوا پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اس موضوع پر بحث کے لئے دو دن اور بڑھائیں ۔انہوں نے کہا کہ جو باتیںوزیر اعلی نے کی ہے۔ اس سے تو لگتا ہے کہ سندھ میںدودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جواب ہم بھی دیں گے بتائیں گے۔جو تباہی آپ نے کی ہے اس کا جواب دس منٹ کیسے دیں گے؟۔ تحریک التواپر بحث میں حصہ لیتے ہوئے صوبائی وزیر آب پاشی جام خان شورو نے کہا کہ اس طرح کا سیلاب تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا۔انہوں نے بتایا کہ25اگست کو قمبر شہداد کوٹ میں تھا اسی شام کو ایف ٹی بند ٹوٹا۔بلوچستان کی بہت سی دیاروں کا پانی سیدھا ہمارے پاس آتا ہے۔ملا ریور میں کبھی ایک لاکھ کیوسک سے پانی نہیں آیا بلوچستان کے مطابق 2 لاکھ کیوسک آیا۔انہوں نے کہا کہ میںوزیر اعلی سندھ کو داد دیتا ہوں۔ جنہوں نے دن و رات متاثرین کی امداد و بحالی کے لئے محنت کی ۔ہمارے ارکان سندھ اسمبلی میں سیلاب متاثرین کے درمیان رہے۔ تحریک انصاف کے رکن فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا۔اگر زیادہ پانی آتا ہے تو ان کی کانپیں ٹانگ جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہالینڈ سطح سمندر سے نیچے ہے لیکن وہاں تو ایسی صورتحال نہیں ہوتی کیونکہ وہاں کے لوگوں نے اپنے ملک کو بچانے کے لیے اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سیلاب آتا ہے تو کچھ لوگوں کی موجیں لگ جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مراد علی شاہ سول انجینئر ہیں۔بتائیں کہ ابھی تک سندھ میں کتنے گھر بنائے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ تھا روٹی کپڑا اور مکان ی۔اس نعرے کے حساب سے اب تک سندھ میں سب کے پاس گھر ہونا چاہیے۔ اب تک کچے مکان کیوں تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی جمہوریت نہیں ہے۔کمیٹیوں آپ اپنے مخالفین کو نہیں رکھتے ہیں۔فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ مجھے کالا باغ ڈیم سے کوئی محبت نہیں ہے۔کیا کوئی بھی ڈیم نہیں بننا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری قوم کو چوروں سے چھٹکارا دلادے۔بعدازاں سندھ اسمبلی اجلاس کامنگل کی دوپہر تک ملتوی کردیا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ

ای پیپر دی نیشن