’’ایکسٹینشن‘‘

Dec 06, 2022


وزیراعظم آفس کی شمالی کھڑکی کے باہر پھیلی دھوپ سرسز گھاس سے کھیل رہی تھی۔  ذرا  پرے مارگلہ کے شاداب پہاڑوں کی چوٹیاں بھلی لگتی تھیں۔  میں وزیراعظم نوازشریف کے عین سامنے بیٹھا،  فائل میں دھرے نوٹس کا پلندہ کھولنے کو تھا کہ وہ بولے __ ’’آپ یہ فائل مجھے دے دیں۔  میں پڑھ کر آپ سے بات کرلوں گا۔‘‘  میں نے کچھ کہے بغیر فائل اُن کی طرف بڑھا دی۔  پانامہ کا آتش فشاں پھٹ چکا تھا۔  لاوا  تھامے نہیں تھم رہا تھا۔  میں اِسی حوالے سے کچھ باتیں کرنا چاہتا تھا۔
  18 مئی 2016؁،  رات فون پر وقت لینا چاہا تو وزیراعظم کہنے لگے  __ ’’کل مجھے گلگت جانا ہے۔  لیکن آپ صبح نو بجے آجائیں  تو پندرہ بیس منٹ بات کرلیں گے۔‘‘
19 مئی کو میں وقت سے پانچ منٹ پہلے پہنچ گیا۔  میاں صاحب ٹھیک نو بجے آگئے۔  اُن کے چہرے کی روایتی بشاشت قدرے سنولائی ہوئی تھی۔  خیرعافیت معلوم کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ذاتی ملازم عابداللہ کو بلوایا۔  اُسے کافی لانے کو کہا اور ساتھ ہی میرا سیل فون اٹھا کر اُس کے حوالے کردیا۔  پھر انہوں نے اپنی میز پر سجے دو تین رنگا رنگ فون سیٹس کی تاریں نکالیں۔  ریموٹ اٹھا کر ٹی۔وی آن کیا۔  آواز قدرے اونچی کی۔  میں حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ 
بیاض تاریخ کی اس تجسس بھری حکایت کو تھوڑی دیر کے لئے یہیں چھوڑتے ہوئے میں ایک ناروا  سی جست لگارہا ہوں۔  ایک لفظ طویل عرصے سے میری نوک قلم سے کھیل رہا ہے۔  میری نوکِ قلم ہی کیا،  اِس چھیل چھبیلے لفظ نے پچھلے کئی برس سے قومی تاریخ میں ہلچل سی مچا رکھی ہے۔  ’’ایکسٹینشن‘‘ (Extension)۔  یہ انگریزی زبان کا ہونے کے باوصف ہماری روزمرہ بول چال میں آنے والا سب سے کثیرالاستعمال لفظ ہے۔  اردو میں ’’توسیع‘‘ اِس کے ہم معنی لفظ موجود ہے جس کی ادائیگی کچھ مشکل نہیں لیکن اِس میں عجیب سی کم مائیگی پائی جاتی ہے۔  اس کے برعکس ایکسٹینشن میں ایک خاص نوع کا رُعب اور دَبدبہ پایاجاتا ہے۔  ’’توسیع‘‘ بولنے سے یوں لگتا ہے جیسے کوئی شے بڑے عجز وانکسار،  بڑی لجاجت سے مانگی جارہی ہو  اور دینے والا صوابدیدی اختیار کا تاج سرپر سجائے،  شاہانہ تمکنت کے ساتھ کچھ عطا کررہا ہو۔  ’’ایکسٹینشن‘‘ میں دینے والے کی بے بضاعتی اور لینے والے کی بالا دستی کا تاثر نمایاں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایکسٹینشن دینے والا اسے اپنا اعزاز وافتخار سمجھتا ہے اور لینے والا احسان اور نوازش کے احساسات کے ساتھ اسے شرف قبولیت بخشتا ہے۔ گویا توسیع دی جاتی ہے اور ’’ایکسٹینشن‘‘ لی جاتی ہے۔  ایک بہ منت وسماجت،  دوسری بزوربازو۔  ایکسٹینشن کا جام پینے والے کے ہاتھ میں جنبش نہ رہے تو بھی آنکھوں میں دَم ضرور رہتا ہے اور وہ ساغرومینا سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ 
1971؁ میں جب ایوب خان اور یحییٰ ڈاکٹرائن کے سبب پاکستان دولخت ہوا،  مشرقی پاکستان،  بنگلہ دیش بنا،  سرِبازار ہم نے جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالے،  ہمارے ہزاروں فوجی بھارتی قیدی ہوگئے تو لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ،  لیفٹیننٹ جنرل  ہی کے طورپر ریٹائر ہوگیا۔ 
 بھارت کی کلغی میں سرخاب کا پَر ٹانکنے والے آرمی چیف،  فیلڈ مارشل ’ مانک شا‘ کا سینہ تمغوں سے بھر دیا گیا۔  حکومتی سفارش پر بھارتی صدر نے سپہ سالار کی معیاد ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کردی۔  ’مانک شا‘ نے معذرت کرنا چاہی لیکن یہ کہہ کر 6 ماہ کی توسیع قبول کرلی کہ میں اپنے سپریم کمانڈر کا حکم رَد نہیں کرسکتا۔  
بھارت کے برعکس،  پاکستان میں ایکسٹینشن کی درخشاں روایت،  جنرل ایوب خان سے چلی اور حال ہی میں رخصت ہونے والے آخری آرمی چیف،  جنرل قمر جاوید باجوہ تک بصد طمطراق جاری رہی۔  ایوب خان،  اُن کے زیرسایہ موسیٰ خان،  ضیاء الحق اور پرویز مشرف مجموعی طورپر چھتّیس (36) برس فوج کے سربراہ رہے۔  بارہ آرمی چیفس کاعرصہ،  ’ایکسٹینشن‘ کے فیضان سے صرف چار نفوس مقدسہ تک محدود ہوگیا۔ 
 2013؁ میں چھ برس بعد بھی جنرل کیانی کے دل میں تیسری ایکسٹینشن کی آرزو  زِندہ تھی لیکن تب نوازشریف وزیراعظم بن چکے تھے جنہیں ایکسٹینشن کے نام سے چِڑ ہے۔  راحیل شریف ہزار جتن کرنے کے باوجود بے ثمر رہے۔  جنوری 2016؁ میں اعلان کردیا کہ میں توسیع کی خواہش نہیں رکھتا لیکن آخری لمحے تک اسی آتش آرزو میں جلتے رہے۔ 
2019؁ میں حقیقی آزادی کے جری مجاہد نے قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن طلائی طشتری میں سجا کر پیش کردی۔  آج وہ اسے اپنی ایک بہت بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔
ابھی اکتوبر میں لندن جانا ہوا توخیال تھا کہ نوازشریف،  نئے آرمی چیف کے انتخاب کے لئے زائچے بنا رہے ہوں گے۔  ملاقاتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ  !  نہیں  __  ریٹائرمنٹ کے اعلانات کے باوجود جنرل باجوہ کی مزید آٹھ ماہ کی توسیع کے لئے منہ زور ہوائیں ’ایون فیلڈ‘ کی دیواروں سے سر پھوڑ رہی ہیں۔  یہ کہانی پھر سہی۔ 
19 مئی 2016 کی صبح نوازشریف بولے جارہے تھے اور میں تصویر ِحیرت بنا سُن رہا تھا۔  آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔  شائستہ مزاج ’اے۔ڈی۔سی‘ دوبار آکر سیلوٹ دے چکا تھا۔  کافی کا دوسرا  دور بھی ختم ہورہا تھا اور میاں صاحب ایک عہدِناسپاس کی کہانی بیان کئے جارہے تھے۔  انہوں نے دو تین بار مجھ سے رازداری کا عہد لیا  __  
’’میں نے ابھی تک یہ بات کلثوم  بی بی کے سوا کسی کو نہیں بتائی۔  میں جانتا ہوں پانامہ کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا ہے؟  2014؁ کے دھرنوں سے ناکام ہوکر ایک بار پھر یہ لوگ عمران خان کو استعمال کررہے ہیں۔  فساد کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔  عدالتوں پر دبائو ڈال کر مجھے منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں۔  نشانہ صرف میری ذات ہے۔  اگر میں کرسی پر بیٹھا رہا تو سازش مزید آگے بڑھے گی۔
  عین ممکن ہے جمہوری نظام لپیٹ دیا جائے اور ملک ایک بار پھر گرداب میں پھنس جائے۔  میرے پاس بڑی مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں کہ ان کے ارادے ٹھیک نہیں۔  میں سوچتا ہوں کہ مستعفی ہوجائوں تاکہ ملک کسی نئے عذاب سے بچ جائے __‘‘
آہنی اعصاب کے مالک نوازشریف کی زبان سے یہ سب کچھ سنتے ہوئے مجھے اپنی سماعت پر شک ہورہا تھا۔  وزیراعظم کے لہجے میں بلا کی شکستگی تھی۔  ’اے۔ڈی۔سی‘  تیسری بار سیلوٹ کرکے پیغام دے گیا تھا کہ ’’سَر ہمیں دیر ہوگئی ہے۔‘‘  میں نے پوچھا  __ ’’میاں صاحب آپ کی ذات سے ایسا کیا مسئلہ ہے؟  یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟‘‘  وزیراعظم نوازشریف اپنی کرسی سے اٹھے۔  دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی کے انداز میں بولے ۔ 
’’ایکسٹینشن‘‘

مزیدخبریں