صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل؟ امکانات و مضمرات 


پنجاب کی وزارت علیا کے حصول کیلئے منظور وٹو کی طرح چوہدری پرویز الٰہی کی بھی لاٹری نکلی ہے! دس ووٹوں کیساتھ ملک کے سب سے بڑے اور اہم صوبے کا مدارالمہام بننا FREAK OF HISTORY  ہے۔ پیپلز پارٹی کو منظور وٹو کی شکل میں کڑوی گولی نگلنا پڑی تھی کیونکہ مقابلے میں میاں نواز شریف تھا۔ اس وقت ان کی مخاصمت کا یہ عالم تھا کہ ایک ’’جانگلی‘‘ کی بجائے جنگل کے کسی باسی کو بھی اس عہدے پر متمکن کرنا پڑتا تو محترمہ تیار ہو جاتیں۔ اس مرتبہ عمران خان کے بھی وہی جذبات ہیں۔ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ ساری جاتی ہوئی دیکھتے ہوئے خان نے آدھی پر اکتفا کیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اپنے پتے بڑی مہارت کے ساتھ کھیلے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے وقت جب خان کو ’’ڈھلمل یقین‘‘ دیکھا تو نصف شب کو آصف علی زرداری کے ساتھ دعائے خیر پڑھ لی۔ ساتھ ہی یہ اہتمام بھی کیا کہ خان تک خبر پہنچ جائے۔ اس روح فرسا خبر کے سنتے ہی خان صاحب کو ’’تریلیاں‘‘ آنے لگیں (پسینے چھوٹنے شروع ہو گئے) انہوں نے بھی چیف منسٹری چاندی کی طشتری میں رکھ کر پیش کر دی۔ چوہدری صاحب کیلئے فیصلہ کرنا آسان ہو گیا۔ سیاست کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ یہ کسی اخلاقی ضابطے کی پروا نہیں کرتی۔ وطن عزیز میں تو بالکل نہیں کرتی! چوہدری کے پاس تو اس کا منطقی جواز بھی تھا۔ انگریزی زبان کا محاورہ ہے To Pay Back in the same coin انہیں شریف برادران کی کہہ مکرنیاں یاد تھیں۔ پچھلی مرتبہ انہوں نے ’’اباجی‘‘ کا بہانہ تراشا تھا اس مرتبہ ’’بھاجی‘‘ کی پخ لگا دینی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن کر بھی دوسرے عارف نکئی ہوتے۔ سردار کی چیف منسٹری چونیاں اور پتوکی تک محدود کر دی گئی تھی! سارے فیصلے پیپلز پارٹی کے ایما پر ہوم سیکرٹری رندھاوا کرتا تھا۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو چوہدری صاحب کا فیصلہ درست تھا۔ چیف منسٹری کیا ملی سب طبل و علم کے مالک و مختار بن گئے! ضلعوں کو ڈویژن اور تحصیلوں کو ضلعوں کا درجہ دیدیا۔ اس اقدام نے مقامی لوگوں کو زیربار کر دیا ہے۔ اگلے الیکشن میں اُن اضلاع کی حد تک یقیناً انہیں سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ اگر عمران خان اسمبلیاں توڑنے کا اعلان نہ کرتے (یا چوہدری صاحب نے کوئی نہ کوئی چکر چلا کر توڑنے نہ دیں) تو عین ممکن ہے کہ اگلے الیکشن میں یہ اس قدر سیٹیں لے جائیں جو دو بڑی پارٹیوں میں (TIE) کی صورت میں فیصلہ کن ثابت ہوں اور ہُما ایک مرتبہ پھر گجرات کے جاٹ کے سر پر بیٹھ جائے۔ فوری تحلیل کی صورت میں کئی وسوسے ذہن کے زندان میں سر اٹھا رہے ہیں اور اندیشہ ہائے دور دراز برسات کے کالے بادل کی طرح برسنے لگے ہیں۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ خان کو اس ’’عاجلانہ‘‘ اقدام کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے علاوہ تین صوبوں کی حکومت ان کے پاس ہے۔ پی ٹی آئی کے نفسِ ناطقہ فواد چوہدری کے بقول (ن) لیگ 27 کلومیٹر تک محدود ہو گئی ہے۔ اتنے تنگ علاقے میں تو سانس لینا بھی مشکل ہوتا ہے، حکومت کیا چلائی ہے؟ یہی سوچ کر شہاب الدین غوری کی طرح انہوں نے دو مرتبہ اسلام آباد پر یلغار کی۔ وہ تو دوسری مرتبہ رائے پتھورا (پرتھوی راج چوہان) کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ یہ نیل بے مرام واپس آئے۔ اسلام آباد میں یلغار نہ کرنے کی جو وجہ بتائی اسے عذر لنگ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ سات ماہ کی تیاری ’’ہل مِن مبارز‘‘ اور بڑھکوں کے بعد یہ حقیقت کیوں اور کیسے آشکار ہوئی۔ اس سونامی میں تموج کیوں نہ اٹھا جس نے حکمرانوں کو بہا کے لے جانا تھا؟ 
اب کے خان نے بظاہر ٹھیک قدم اٹھایا ہے۔ اسے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش بھی کہا جا سکتا ہے۔ پنجاب شریف خاندان کا قلعہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس میں دراڑیں تو پہلے ہی پڑ چکی ہیں۔ اب صرف فتح کرنا باقی رہ گیا ہے۔ اس سے نادر موقع عمران کو نہیں مل سکتا۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو وہ اس وقت مقبولیت کی انتہا تک پہنچ گیا ہے۔ پنجاب میں حالیہ الیکشن جس طرح اور جس بھرپور انداز میں اس نے جیتے ہیں وہ اس دلیل کا بین ثبوت ہیں۔ اس قسم کے مواقع روز روز نہیں ملتے۔ مرکزی حکومت منقار زیر پر ہے۔ معیشت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ لوگ بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کا بوجھ اٹھا نہیں پا رہے۔ برطانوی وزیر اعظم سر رابرٹ بیل نے کہا تھا۔ 
Public opinion is the fickle thing on Earth. 
اس بات کا عمران خان کو ادراک ہے۔ معزولی سے پہلے وہ انتہائی غیر مقبول تھے۔ معزولی کے بعد پنجاب محاورے کے مصداق ’’کُبے نوں لت وج گئی‘‘ اگر شریف برادران معیشت کو سنبھالا دے دیتے ہیں تو گھڑی کا پنڈولم دوسری طرف بھی جا سکتا ہے لہٰذا To Take Time by Forlock ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ (ق) لیگ کی ’’بلیک میلنگ‘‘ سے بھی نجات مل جائے گی۔ پانسہ پلٹ جائے گا اور گجرات کا چوہدری ’’دریوزہ گِر آتش بیگانہ ہو جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ ’’بخشش‘‘ کے طور پر اسمبلی کی اسپیکر شپ ان کی جھولی میں ڈال دی جائے۔ (ن) لیگ سے زیادہ نقصان (ق) لیگ کا ہو گا۔ انہیں صرف اس قدر ووٹ اور اتنی سیٹیں ملیں گی جتنا خان چاہے گا۔ 
چوہدری پرویز الٰہی نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ بیک وقت دو متضاد بیانات آ رہے ہیں ’’من چہ می سرائم و تنبورہ من چہ می سرائد‘‘ بڑے چوہدری کن …فیکون ۔ کی گردان کر رہے ہیں تو ’’پرنس آف ویلز‘‘ خان صاحب کو وہ احسانات یاد دلا رہے ہیں جو ان پر ہمہ مقتدر قوتوں نے کئے تھے۔ اس میں بین السطور احسان فراموشی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایک عجیب طرز کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ چودھری صاحب کو اپنے قدم جمانے کیلئے مزید آٹھ ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ خان کو شریف برادران کے قدم اُکھاڑنے کیلئے فوری انتخابات چاہئیں۔ شریف برادران معیشت کے مضبوط ہونے تک الیکشن کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جس قدر یہ تگ و دو اور کشمکش طوالت اختیار کرے گی، نقصان عوام کا ہو گا کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی جنگ میں نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔ یہاں دہرا نقصان ہو رہا ہے۔ ہاتھیوں نے رزم گاہ میں گھاس بھی ازخود کھانی شروع کر دی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن