ایک شادی کی تقریب میں ایک خاتون نے بتایا۔آجکل ملک کے حالات بڑے ہی ناگفتہ ہو گئے ہیں۔کچھ دن پہلے شام کا وقت تھا۔تومیرا جی چاہا تھوڑی سی چہل قدمی کرلوں۔موسم سرد ہونے کی وجہ سے میں گھر کے باہر فٹ پاتھ پر سیر کرنے کیلئے ابھی گیٹ کھولا ہی تھا کہ ا یک دم دو لڑکے گھر کے پورچ میں داخل ہو گئے اور گن پوائنٹ پر پوچھنے لگے۔تمہارے گھر میں کتنا روپیہ اور زیور ہے۔جلدی سے بتا دو ورنہ شوٹ کر دیں گے۔موت کا خوف اس قدر تھا کہ مجھ سے آواز ہی نہ نکلی۔سکتہ سا ہو گیا۔
تو انہوں نے کمال پھرتی سے میری کلائی سے سونے کی چوڑیاں تیز دھار چیز سے کاٹی اور انگوٹھیاں بے دردی سے اتاریں۔اتنے میں میرا میاں گاڑی سے اترا اور وہ تیزی سے رفو چکر ہو گئے۔میرا رنگ زرد ہو گیا اور بڑی مشکل سے سارا ماجرا بتایا۔کئی دن ہو گئے تھے لیکن میرے اندر خوف سرائیت کر گیا تھا۔
اس خاتون کی باتیں سن کر رہ رہ کر خیال آرہا ہے کہ اس ملک کے حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں۔ایک مہنگائی کی وجہ سے چوری ڈکیتیوں کا کام دن دھاڑے ہو رہا ہے۔گداگری کی شرع بڑھتی جا رہی ہے۔غریب اور متوسط سطح کے لوگوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔سفید پوش دو وقت کی روٹی کیلئے بھی محتاج ہو گئے ہیں۔دیکھا جائے تو ساری دنیا میں مہنگائی بڑھتی ہے۔مگر ایک خاص طبقے کو اتنا فرق نہیں پڑھتا۔مہنگائی ہوتی ہے تو ان کی تنخواہیں بڑھ جاتی ہیں۔باہر کے ملکوں میں۔نادار اور غریب لوگوں کیلئے شیلٹر ہائوسز اور الائونس گورنمنٹ مہیا کرتی ہے۔وہ کھانے پینے کے علاوہ اپنے شیلٹر ہائوسز میں رہتے ہیں فٹ پاتھوں پر بھیک نہیں مانگتے۔ہاں البتہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی علاقہ ایسا ہوتا ہے۔جہاں رات کے وقت سیاہ فام لوٹ لیتے ہیں۔اگر بٹوے میں روپے نہ ہوں تو شوٹ کر دیتے ہیں۔مگر لوگ ایسے علاقوںسے جانے کیلئے گریز کرتے ہیں۔بہت سال پہلے جب بھی باہر کے ملک میں جاتی تو کہا جاتا سب جگہ گھوم پھر لیںمگر اس علاقے میں مت جائیں۔میں اکثر اپنی میزبان بہن کو کہتی۔ ہمارے پاکستان میں ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں لوٹ مار ہو۔مگر دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کے حالات بگڑتے گئے۔روشنیوں کے شہر کراچی میں سر شام ہی اندھیرا چھا جاتا ہے۔باہر کے ملکوں میں ابھی تک مخصوص علاقوں میں ایسی وارداتیں ہوتی ہیں مگر۔اور لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ علاقہ سیف نہیں ہے تو وہ جانے سے گریز کرتے ہیں۔مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک کوئی شہر محفوظ نہیں ہے۔
ملک کے اس سنگین حالات میں صاحب اقتدار کو لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہے۔ مگرصاحب اقتدار کو اپنی کر سیاں عزیز ہیں۔کرسیوں کے بچائو کیلئے تحفظ کرتے ہیں کہ کس طرح کرسیاں قائم رہیں۔اور ملک میں زیادہ سے زیادہ حکومت کر سکیں۔
ملک کیلئے زبانی کلامی باتیں کرتے ہیں۔عملی طور پر کچھ نہیں کرتے لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ کرونا نے اور ڈینگی نے پھر قدم ابھی تک جمائے ہیں۔کافی لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ لوگ ابھی تک مر رہے ہیں۔ اس کی وجہ بھی سب جانتے ہیں۔ اللہ میں ہم سے ناراض ہے اور اس نے رائی رائی کا حساب بھی لینا ہے۔ اللہ کو راضی کرنے کیلئے لوگوں کو اپنے رویے بدلنے ہونگے اللہ کے حکام پر چلنا ہو گا تب جا کرشاید اللہ ہم سے راضی ہو جائے گااور یہ وبا بھی ختم ہو جائے گی اور ملک کے حالات بھی بہتر ہو جائیں گے۔کاش کوئی ایسا صاحب اقتدار آئے جو ملک کو جنت کا گہوارہ بنا دے اور لوگوں کے مسائل کو حل کرے اور ان کی غربت دور کرے اللہ سے میری التجا ہے۔شاید یہ دن آہی جائے میرا اللہ پر بھروسہ ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا۔ جب ملک کے سنگین حالات سے ہم نجات پا جائینگے۔امید پر دنیا قائم ہے۔
٭…٭…٭