عیشہ پیرزادہ
امریکی حکومت کی معاونت سے 1955ء میں ہوم اکنامکس کی تعلیم کے فروغ کے لیے کالج آف ہوم اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز قائم کیا گیا۔ ادارے کی عظیم تعلیمی خدمات کے باعث، حکومت پنجاب نے 2017ء میں اسمبلی سے یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور ایکٹ منظور کرایا۔ سرچ کمیٹی کی سفارشات پر حکومت نے 2019ء میں پروفیسر ڈاکٹر کنول امین کوپہلا مستقل وائس چانسلر تعینات کیا۔جس کی چار سالہ مدت ختم ہونے کے بعد، پنجاب حکومت نے اگست 2023ء میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر فلیحہ زہرا کاظمی کو یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس میں قائمقام وائس چانسلر کے عہدے پر تعینات کیا۔ ڈاکٹر فلیحہ کا تعلیمی کیرئیر 26 سال پر محیط ہے اور انھوں نے اس دوران 65 سے زائد مقالہ جات تحریر کیے ہیں۔ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فلیحہ زہرا کاظمی کے ساتھ خصوصی انٹرویو نذر قارئین ہے۔
سوال:آپ کے بنیادی اہداف میں کیا کیا شامل ہے؟
جواب: لاہور کی قدیم درس گاہ میں ، وائس چانسلر کے عہدے پر تعیناتی میرے لیے باعث فخر ہے۔ یونیورسٹی بننے سے پہلے، اس ادارے میں صرف ایک مضمون میں بی ایس آنرز کی ڈگری آفر کی جارہی تھی اور یہ ڈگری پنجاب یونیورسٹی جاری کرتی تھی۔ تاہم اب یونیورسٹی میں 21 ڈگری پروگرامز آفر کیے جارہے ہیں، جبکہ تین ایسوسی ایٹ ڈگری اور 5 ڈپلومہ کورسز منظور کیے گئے ہیں۔ ہم ایچ ای سی میں دو نئے ایم فل ڈگری پروگرام اور ایک پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے دستاویزات جمع کرارہے ہیں اور ہمیں اْمید ہے کہ رواں برس ہمیں ایچ ای سی سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی نئی ڈگریاں شروع کرنے کا این او سی مل جائے گا۔
سوال: کیا ہوم اکنامکس یونیورسٹی ایچ ای سی کی نئی انڈرگریجویٹ پالیسی نافذ کرنے کے اقدامات کر رہی ہے؟
جواب: جی بالکل، میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد تمام شعبہ جات کے صدور اور کوالٹی اینہاسمینٹ سیل کو ہدایات جاری کیں کہ فوری طور پر ہر مضمون کے بورڈ آف اسٹڈیز کا اجلاس طلب کیا جائے اور نئی انڈرگریجویٹ پالیسی کے مطابق درکار اصلاحات کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔
سوال: طالبات کی شخصیت سازی کیلئے نصاب کے علاوہ کن امور پر توجہ مرکوز ہے؟
جواب: ہوم اکنامکس کی تعلیم ہی بنیادی طور پر طالبات کو آداب زندگی و معاشیات سکھانا ہے۔ یونیورسٹی کلچر میں ایسے امور شامل ہیں جس کے تحت طالبات کی تربیت کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی نے طالبات کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے اور ان میں اعتماد کو فروغ دینے کے لیے 13 سٹوڈنٹ سوسائٹیز قائم کر رکھی ہیں۔طالبات کو پاپند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کی کسی بھی دو سوسائٹی کی رکنیت اختیار کریں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر ہونے والے تمام نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد انھی سوسائیٹیز کے تحت کرایا جاتا ہے جس کی تمام تر ذمہ داریاں طالبات ادا کرتی ہیں جبکہ اساتذہ ان طالبات کی نگرانی و معاونت کر رہے ہوتے ہیں۔ طالبات کو کیمونٹی سروسز کے مختصر دورانیہ کے پراجیکٹس میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ وہ سماجی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ رہیں۔ طالبات کو انفرادیت سے نکال کر اجتماعی سوچ کی طرف مائل کرنا بڑا ہدف ہوتا ہے اور یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سارا سال ہم نصابی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ پہلی بار انٹریونیورسٹیز تھیٹر فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں 8 یونیورسٹیز نے شرکت کی، ہوم اکنامکس یونیورسٹی نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر کے تحت پنجاب ناٹک میں ہوم اکنامکس یونیورسٹی نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے انوویشن ایکسپو 2023ء میں آرٹ اینڈ ڈیزائن کی کیٹگری میں ہم نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
سوال: کیا اعلیٰ تعلیمی شعبوں میں ترقی ، پاکستان کی قومی ترقی کیلئے ناگزیر ہے؟
جواب: ہمیں نالج اکانومی کے بنیادی ڈھانچہ سے آگاہ ہونا ہوگا۔ معیاری معلومات تک رسائی، قابل اعتماد معلومات تلاش کرنے کے لیے درکار مہارتیں اور مختلف شعبوں میں بہتری کے لیے اس کا مفید استعمال اور تمام شعبوں میں جدت لانے کے لیے مسلسل سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنا ناگزیر ہے۔ معاشی ترقی کا انحصار پیداوار کے ذرائع کے بجائے دستیاب معلومات کی مقدار، معیار اور رسائی پر ہوتا ہے۔ نالج اکانومی میں معاشی ترقی کا ایک بڑا حصہ علم پر مبنی سرگرمیوں پر منحصر ہوتا ہے۔ نالج اکانومی میں افراد اور کمپنیوں، دونوں کی طرف سے مسلسل سیکھنے، اپنی مہارتوں میں اضافہ کرنے کا عزم درکار ہوتا ہے جو درحقیقت جدت کو فروغ دینے میں معاونت کرتا ہے۔ نالج اکانومی کے لیے بنیادی شرط معلومات تک رسائی ہے اور ڈیجیٹل ایج میں یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔مساوی بنیادوں پر یہ حق مہیا کیے بغیر ہم پاکستان کو نالج اکانومی میں تبدیل نہیں کر سکتے لہذا معلومات تک مساوی رسائی فراہم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے مہارت حاصل کرنے کا بنیادی تعلق علمی کلچر، نظام تعلیم، درس گاہوں اور فرد کی علم کی تلاش کی جستجو سے ہے۔ پاکستان کے طلباء میں مہارتیں سیکھنے کو فروغ دینے کی بجائے رٹہ سسٹم میں تربیت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں علمی مہارتیں پیدا کرنے کے لیے، سوالات پوچھنے اور اختراعی خیالات پر قدغن کو ختم کرنا ہوگا، علم کے متلاشی، پْر اعتماد اور تخلیقی سوچ کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بالکل واضح رہنا چاہیے کہ نالج اکانومی کا مرکز علم ہے اور پاکستان میں علم کی تخلیق اْسی صورت ممکن ہے جب بنیادی تعلیمی ڈھانچہ میں تبدیلی کے ساتھ علم تک رسائی، آزاد سوچنے کی صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھایا جائے گا۔
سوال: ہوم اکنامکس یونیورسٹی کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کس اکنامک ماڈل پر کام کر رہی ہیں؟
جواب: ہماری یونیورسٹی سرکاری ادارہ ہے اور سرکاری ادارہ خالصتاً تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ ہماری یونیورسٹی کا مقصد منافع کمانا نہیں ہے بلکہ خواتین کو معیاری اور سستی تعلیم مہیا کرنا ، ہماری اولین ذمہ داری و ترجیح ہے۔ یونیورسٹی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مستقبل میں کمرشل منصوبوں کے اجراء کا ارادہ رکھتی ہے، ان منصوبوں کا بنیادی مقصد یونیورسٹی کو درکار معاشی وسائل کی تلاش کرنا ہے۔ حکومت پنجاب کے منظور کردہ قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے، ہم مستقبل میں کمرشل پراجیکٹس لانچ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں ، اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی نے گزشتہ مہینے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ آٹو موٹیو ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت یونیورسٹی آٹو موٹیو انڈسٹری کے لیے ڈیزائن کے شعبوں میں تکنیکی معاونت مہیا کرے گی، یہ معاہدہ دونوں یونیورسٹیوں کے مفاد اور دستیاب مہارتوں کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ اسی طرح، ہم مختلف کمپنیوں اور کمرشل اداروں کے ساتھ ڈیزائن کے شعبوں میں اشتراک کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں جس سے یونیورسٹی کو مالی فوائد حاصل ہوسکیں۔ سرکاری یونیورسٹی ہونے کی بناء پر ہم طالبات کی فیسوں میں اضافہ نہیں کر سکتے بلکہ ہم نے فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی اور سنڈیکیٹ سے رواں برس فیسیں نہ بڑھانے کی منظوری حاصل کر لی ہے۔ ہمیں مستقبل کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاشی خود مختاری حاصل کرنا ہے یہ معاشی خود مختاری دراصل یونیورسٹی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے۔
خدمات اور روایات کو آگے بڑھانا میرا ہدف ہے
Dec 06, 2023