ع۔ پیرزادہ
غزہ میں خوفناک اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں جہاں کئی خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے وہیں کئی دلخراش کہانیوں نے بھی جنم لیا۔ ان دلخراش واقعات کا آغاز تو فلسطین میں اسرائیل کے قابض ہونے کے بعد سے جاری ہے البتہ اب سوشل میڈیا کے ذریعے وہاں ہونے والی بربریت کو زیادہ قریب سے دیکھا جا رہا ہے۔
ساری صورتحال میں بچوں کی شہادت دل دہلا رہی ہے۔ فلسطین کی تقریبا نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بچوں کی شہادت کی تعداد زیادہ ہے۔
میں اس باپ کو سلام کرتی ہوں جس کے بازوئوں میں اس کی لاڈلی ننھی پری کی لاش بے دم ہو۔ چند دن پہلے ایسا ہی ایک لرزہ دینے والا منظر نظروں سے گزرا۔ والد بچی کی لاش بازئوں میں تھامے سینے سے لگا رہا تھا۔ وقتا فوقتا بچی کا ماتھا چومتا اور کے سر پر ہاتھ پھیرتا۔ جبکہ بچی کو اس انداز سے جی بھر کر دیکھ رہا تھا کہ اب بچی کو کبھی دیکھ نہ سکے گا۔ پھر بچی کی بند آنکھوں کو اپنی انگلیوں کے ذریعے کھول کر دیکھتا ہے جہاں بچی کا ٹھہرا ہوا کالا دیدہ نظر آتا ہے۔ یہ لمحہ دیکھ کر احساس ہوا کہ بچی کا باپ اپنی لاڈلی کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ اس کے بعد آخری مرتبہ بچی کو سینے سے لگایا اور رضاکاروں کے حوالے کر دیا۔ رضاکاروں نے باپ کے سامنے اس کی لاڈلی کو پلاسٹک کور میں لپیٹنے کے بعد سفید کفن سے آراستہ کیا۔ یہ تمام منظر دیکھ کر یقینا ہر دیکھنے والے کی آنکھ نم ہوئی ہو گی مگر سلام ہے اس باپ کی ہمت کو جو یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا لیکن سراپا صبر و استقامت کی تصویر بنا رہا۔ ا س سے پہلے بھی کئی ایسی ویڈیوز آپ کی نظروں سے گزری ہوں گی لیکن ان سب میں بچوں کے والدین کو بے حال ہی دیکھا گیا۔ اس منظر نے پوری دنیا کو ہلا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مذکورہ ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہو گئی۔
پھر بچی کے والد کی مزید ویڈیوز بھی منظر عام پر آئی جو جنگ سے پہلے کی تھیں۔ ان ویڈیوز میں فلسطنی بچی اپنی باپ کی گود میں مستیاں کرتی دیکھائی دیتی تو کہیں باپ کے شانوں پر بیٹھی سیر کرتی نظر آئی۔ جبکہ بچی کے ساتھ اس کے باپ کا کھیلنا اور لاڈ کر نا دیکھ جدائی کا وہ لمحہ نظروں سے گزرا جب وہی والد اپنی لاڈلی کو ہمیشہ کے لیے اللہ کے سپرد کر رہا تھا۔ ایک ویڈیو اور بھی دیکھی جس میں وہ فلسطینی آدمی ملبے کے ڈھیر سے اپنی ننھی گڑیا کے کھلونے نکال کر لا رہا تھا۔ شاید اب وہی کھلونے بچی کی یاد بن کر ساتھ رہیں گے۔
ہم مسلم امت کا حصہ ہیں لیکن امت کہاں نظر آرہی ہے؟ یہ فرقوں، ذاتوں،اختلافات میں بٹ چکی ہے۔ امت کا مطلب متحد ’’ایک‘‘ ہونا ہے۔ لیکن آج فلسطین پر اسرائیلی مظالم پر سوائے قرار دادوں کے ہم کیا کر رہے ہیں؟ ظلم کرنے والے کیساتھ وہ سب بھی برابر کے شریک ہیں جو اس ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔ اسرائیلی بے خوفی اور جرات کو دیکھ کر یہ یقین ہو چلا ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کر دوسری قوتوں کے حوالے کر دیئے ہیں۔اب انتظار اس وقت کا ہے جب نا اتفاقی کی سزا ملے گی۔ گریٹر اسرائیل بنے گا اور اسے ہم میں سے کوئی روک نہ پائے گا۔ ان حکمرانوں میں اتنا دم نہیں کہ معصوم بچوں کی بکھری لاشیں دیکھ کر ہی کوئی حکمت عملی اپنائیں۔ ہم وہ ہیں جو اپنے گھر میں لگی آگ کو بھی بجھا نہ سکیں گے۔ مغرب کے اتحاد کو داد دینی چاہیے کہ ان میں سے اگر کسی ایک ملک پر ایشیائی قوت کا حملہ ہو تو تمام مغربی ممالک ایک ہوکر مقابلہ کرتے ہیں۔ یوکرین ایک نہایت چھوٹا سا ملک ہے۔ روس سمجھتا تھا کہ اس پر غاصب ہو جائے گا لیکن روکرین پر حملے کے بعد تمام مغربی دنیا نے روس سے بائیکاٹ کر دیا اور یوکرین کی کھلم کھلا جنگی ہتھیاروں سے مدد کی۔
امت مسلمہ کی جڑیں مر حلہ وار کھوکھلی کی گئیں اسی طرح جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ لکڑی کسی کام کی نہیں رہتی، ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ اب سب اپنی اپنی خیر منائیں۔۔۔