مسیحاؤں کے کاروباری چہرے

طب کا پیشہ ہمیشہ سے قابل احترام ہے کہ یہ لوگ اللہ کی بنائی ہوئی مشینری کا علاج کرتے ہیں استاد اور ڈاکٹرز کو ہر معاشرے میں اعلی مقام حاصل ہے لیکن جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں پورا معاشرہ ہی اکھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ بنیادی اخلاقیات کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے خدمات اور پیشہ ورانہ تقاضے دم توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر طرف افراتفری کا سماں ہے۔  ہر کوئی لوٹ مار میں مصروف ہے۔ ایسی لوٹ مار اور چھینا جھپٹی ہم نے پوری زندگی نہیں دیکھی جس میں بے حسی اس حد تک غالب آچکی ہے کہ ہم انسانیت بھی بھول چکے ہیں۔ ہم پیسوں کے لالچ میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہماری آنکھوں پر پیسوں کی پٹی بندھ چکی ہے۔ ہم دولت کی ہوس میں ہر چیز کا قتل عام کیے جا رہے ہیں اور انسانی خدمت کے شعبے بھی لوٹ مار میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ہمارے ہسپتال بوچڑ خانے بن چکے ہیں اور مسیحا قصاب کا روپ دھار چکے ہیں۔ ادویات ساز کمپنیاں لوٹ مار کے اڈے ہیں جن کی منافع خوری کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ جس دوائی کی پروڈکشن پر دس روپے خرچہ آتا ہے وہ مریض کو ایک ہزار میں فروخت کی جا رہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال اس ملک کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ یہی حال تعلیمی اداروں کا ہے جہاں تعلیم وتربیت کی بجائے تعلیم فروشی کا کاروبار ہو رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر فروخت ہونے والی چیز کی خریدوفروخت پر بارگینگ ہوتی ہے لیکن آپ ڈاکٹر اور استاد سے بارگینگ بھی نہیں کر سکتے۔ ان کے منہ سے جو نکلتا ہے آپ کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس ساری تمہید کا مقصد ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرنے کا ہے۔ فاروق کالونی والٹن روڈ کے رہائشی عبدالرشید نامی ایک شخص کی ٹانگ میں درد ہوتا ہے جس پر وہ مقامی ڈاکٹر کو چیک کرواتا ہے جو اسے بتاتا ہے کہ یہ ویسکلور درد ہو سکتی ہے۔ آپ فلاں ہسپتال میں سپیشلسٹ ڈاکٹر کو چیک کروائیں۔ وہ متعلقہ ہسپتال میں چیک کرواتے ہیں تو ڈاکٹر انھیں متعدد ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں۔ وہ ٹیسٹ کروا کے اپنے ایک واقف کار ڈاکٹر سے بات کرتے ہیں جو انھیں کہتا ہے کہ فلاں ہسپتال  میں میرا ایک دوست ڈاکٹر  ہے آپ اس سے مشورہ کر لیں۔ وہ اس کے پاس مشورہ کے لیے جاتے ہیں تو وہ  بتاتا ہے کہ آپریشن کی ضرورت نہیں آپ کی ٹانگ میں معمولی سی خون کی بلاکج ہے میں ایک جگہ سے کیمرہ ڈال کر اسے سک کرلوں گا اور آپ دوتین گھنٹوں میں فارغ ہو کر گھر چلے جائیں گے۔ آپ  ہسپتال سے آپریشن  کروانے کی بجائے مجھ سے علاج کروائیں جو زیادہ بہتر اور آسان ہے اس کے ساڑھے تین لاکھ روپے کے اخراجات ہوں گے۔ ڈاکٹر ان کو شیشے میں اتار کر فوری علاج پر آمادہ کر کے کمرے میں لیجا کر علاج شروع کر دیتا ہے۔ جب باہر بیٹھے لواحقین کو کافی دیر تک  کوئی اطلاع نہیں دی جاتی تو انھیں تشویش ہوتی ہے۔ وہ سٹاف  سے پوچھتے ہیں جس پر اڈاکٹر آکر بتاتا ہے کہ میں نے تین چار جگہوں سے وائر ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن کلاٹ ریمو نہیں ہو رہا اب آپ ایک انجکشن کا بندوبست کریں جو دو لاکھ روپے مالیت کا آتا ہے اس سے خون پتلا ہو جائے گا اور میں صبح آکر دوبارہ کیمرہ ڈال کر اسے ریمو کر دوں گا۔ اس دوران مریض کو پیشاپ والی نالی لگا دی جاتی ہے جو غلط لگنے کی وجہ سے بلیڈنگ کا باعث بنتی ہے۔ مریض کے جسم پر مختلف حصوں سے وائر ڈالنے کی کوشش میں زخم ہو جاتے ہیں۔ مریض شدید درد سے کراہتا رہتا ہے اور درد ختم کرنے والی ادویات بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہوتیں تو وہ مریض کے ہاتھ اور پاؤں بیڈ کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ متعلقہ ڈاکٹر گھر جا کر اپنا فون بھی بند کر دیتا ہے۔ علی الصبح جب ان سے رابطہ ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے میں آ رہا ہوں۔ وہ آکر دوبارہ وائر ڈال کر پراسس کرنا شروع کرتا ہے لیکن ناکام رہتا ہے اور کہتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس کے لواحقین دوبارہ مایوس ہو کر مریض کو ویسکلور سرجن کے پاس لے جاتے ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر  کا بل ساڑھے تین لاکھ سے بڑھ کر پانچ لاکھ ہو جاتا ہے۔ مریض کے لواحقین سات لاکھ خرچ کر کے اور کیس خراب کروا کے نجی ہسپتال پہنچتے ہیں تو ڈاکٹر انھیں بتاتے ہیں کہ مریض کی ٹانگ تو ضائع ہو ہی چکی ہے اب تو اس کی زندگی کو خطرہ ہے کیونکہ خون پتلا ہونے کی وجہ سے فوری آپریشن نہیں ہو سکتا۔ اگلے دن مریض کی ٹانگ کاٹ دی جاتی ہے جبکہ دوسری ٹانگ میں وائر ڈالنے کی وجہ سے اس ٹانگ کا پاؤں بھی خراب ہو جاتا ہے جو تین ماہ گزرنے کے باوجود ٹھیک نہیں ہو رہا۔ مریض کے ایک بھائی کو یہ ساری صورتحال دیکھ کر ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے جبکہ سارا خاندان سکتے میں ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پیسے کے لیے مسیحا کو اجازت ہے کہ وہ ایس او پیز کے بغیر ہی جو مرضی کرتا پھرے۔ کیا ایک ریڈیالوجسٹ آپریشن کر سکتا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب، وزیر صحت اور متعلقہ اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ جو انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ تمام ہسپتالوں کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے۔ جو ڈاکٹر جس کا ماہر ہے اسے اسی علاج کی اجازت ہونی چاہیے۔ پیشہ ورانہ قواعد وضوابط کی پابندی کو یقینی بنایا جائے۔

ای پیپر دی نیشن