پاکستان کے گلے سڑے سیاسی نظام میں 76سال بعد بھی کوئی بدلائو نہیں آ سکا۔ گزشتہ تین دہائیوں سے ہماری ’’سیاست‘‘ کچرے کا ڈھیر بن گئی ہے۔ کسی کی عزت کا کوئی خیال نہیں، کوئی پاسداری نہیں۔ سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنا، بہتان اور غلیظ الزامات لگانا اب معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس سارے تناظر میں اب عام عوام بھی بیزار اور اکتاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔
یہ کیا ہو رہا ہے ہم سب جب ایک دوسرے کی طرف رجوع کرتے ہیں تو کوئی تسلی بخش اور سیر حاصل جواب نہیں ملتا۔ سیاست کچھ لوگوں کے نزدیک عبادت ہے لیکن یقین جانیے اسے ’’عبادت‘‘ نہیں رہنے دیا گیا۔ دو، تین دہائیوں سے تو ’’حالات‘‘ بہت دگرگوں ہو گئے ہیں۔ اب سیاسی گھرانوں کی ’’مستورات‘‘ بھی محفوظ نہیں رہیں۔ بے ہودگی کی انتہا ہے۔ الزام لگانا مقصود ہو تو بے رحم طریقے سے کسی پر کوئی بھی الزام لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اگرچہ ’’ہتک عزت‘‘ کا قانون موجود ہے لیکن ہم نے ہتک عزت کے اس قانون کی بھی ’’ہتک‘‘ ہوتے دیکھی ہے۔ اس قانون کے تحت کورٹ میں جانے والا دہائیوں حصولِ انصاف کے لیے مارا مارا پھرتا ہے لیکن ’’انصاف‘‘ نہیں ملتا ۔ نظامِ عدل کی یہ بہت بڑی بدنصیبی ہے کہ پاکستان کے گزشتہ 76سالہ ادوار میں ہمارے عدل کا یہ فرسودہ نظام آج تک کسی کو ’’ہتک عزت‘‘ کے مروجہ قانون کے تحت انصاف فراہم نہیں کر سکا۔
یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ہتک عزت کے اس کمزور اور ناتواں قانون کا سہارا نہیں لیتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا کھل کر موقع مل جاتا ہے۔ میڈیا بھی الزام تراشی کے اس کھیل میں اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے خوب مرچ مصالحہ لگاتا ہے اور بُری سے بُری بات بھی شہروں شہروں، ملکوں ملکوں کوبہ کو پھیل جاتی ہے۔ کسی کی ماں، بہن، بیٹی کی عزت و آبرو کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ’’الزام‘‘ صحیح ہے یا غلط۔ صحتِ الزام کی تصدیق کئے بغیر ہر کوئی یہ فریضہ پورے شدومد سے انجام دیتا ہے۔ جس سے ماحول میں کشیدگی اور انارکی یورش کرتی نظر آتی ہے۔
ہمارا مذہب اور قدیم ثقافتی ورثہ قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اس قسم کی ’’لغویات‘‘ کا حصّہ بنیں۔ مگر ایسا ہو رہا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے اس میں خاصی تیزی آئی ہے۔ نواز شریف کے گزشتہ سے پیوستہ دورِ حکومت پر نظر دوڑائیں تو اُن کی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شدید نوعیت کی سیاسی مخاصمت رہی۔پتہ نہیں وہ ایک دوسرے کو سیاسی کشیدگی کے اس ماحول میں کیسے برداشت کرتے تھے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ جہاز کے ذریعے محترمہ کی ذات کے حوالے سے کچھ نازیبا تصاویر والے پمفلٹ لاہور کی فضائوں سے گرائے گئے۔ پہلی بار ہوا کہ لاہوریوں نے ایسے قابل اعتراض پمفلٹ آسمان سے زمین پر گرتے دیکھے۔ کہا گیا کہ اس ساری کارروائی کے پیچھے مذموم سازش اور نواز شریف ہیں۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی میں بہت غم و غصہ پایا گیا۔ اس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین شدید نوعیت کی ٹھن گئی۔ یہ فضا دونوں کے مابین طویل عرصہ تک یونہی برقرار رہی۔
تاہم مشرف دور حکومت میں جب نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو لندن میں جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے، دونوں کے مابین ایک ملاقات ہوئی۔ اور انہوں نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کیا۔ جس کے بعد حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے۔ تاہم دونوں جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین روایتی سیاسی مخاصمت برقرار رہی۔ لیکن کردار کشی والی مہم میثاق جمہوریت کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی۔
2016ء میں سیاسی تلاطم جب اپنے پورے عروج پر تھا۔ عمران خان بھی سیاسی افق پرمحوِ پرواز اور مقبولیت کی اتھاہ بلندیوں پر تھے وہ اپنے جلسوں اور میڈیا ٹاک کے دوران نواز شریف اور اُن کے فیملی ارکان خصوصاً مریم نواز کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور اُن کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن کیا کریں تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرا رہی ہے۔ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی آج کل 190ملین پائونڈ کیس اور اپنے دوسرے نکاح کے حوالے سے خبروں میں ہیں اور سخت ہدفِ تنقید بنی ہوئی ہیں۔ اسی آڑ میں اُن کی کردار کشی کا عمل بھی تسلسل سے جاری ہے۔
کیا یہ ’’عمل‘‘ ہم سب کے لیے باعثِ ندامت نہیں۔ اس سے پہلے بھی جو ہوا یا جو ہوتا رہا، وہ بھی قابل مذمت ہے ہی لیکن آج جو ہو رہا ہے اُس کی بھی کسی طور پذیرائی نہیں کی جا سکتی۔ سینئر پیپلز پارٹی رہنما تاج حیدر نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں اینکر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ٹھیک کہا کہ سیاسی خاندانوں کے مابین بے ہودہ الزامات اور تہمتوں کی روایت کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔ ہماری پارٹی میں اس کی اجازت ہے ، نہ روایت کہ بے ہودہ و بے سروپا الزامات اور تہمتوں کا بازار گرم کریں۔ ہمارا سماجی کلچر بھی قطعی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ صرف تاج حیدر ہی نہیں ، باقی تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ لوگ بھی بالکل اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔مگر کیا کریں باشعور اور ذمہ دار ہونے کے باوجود ہمارے سیاسی رہنما بات کرتے ہوئے ٹریک سے اتر جاتے ہیں۔ سیاسی مخالفین پر تہمتوں کی گولہ باری کرنے سے قطعی گریز نہیں کرتے۔
موجودہ دور کی بات کریں توبشری بی بی آج کل مخالفین کے سخت نشانے پر ہیں۔ چند میڈیا ہائوسز اور نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بیٹھے کچھ ’’مہمان‘‘ بھی جو تجزیہ کار کہلاتے ہیں، مخالفت میں تہمت یا الزام لگاتے حد سے گزر جاتے ہیں۔ میرا ہرگز یہ مؤقف نہیں کہ کسی نے اگر کوئی جرم کیا ہو تواُسے معاف کر دینا چاہیے۔ جس کا جو جرم ہو، اُسے ضرور اُس ’’جرم‘‘ کی سزا ملنی چاہیے۔ تاہم یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ابھی نوعیت ’’الزام‘‘ کی ہے، صرف ’’الزام ‘‘ کی بنیادپر ہم کسی شخصیت یا اُس سیاسی شخصیت کی فیملی کی کیسے کردار کشی کر سکتے ہیں۔ ہمارے دین نے بھی ’’تہمت‘‘ سے منع کیا ہے۔’’تہمت‘‘ کو دین اسلام میں سخت جرم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ہم شرعی اور رائج الوقت قوانین کی بالکل بھی پاسداری نہیں کرتے اور سب کچھ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ ہمیں اپنی تہذیب و تمدن کا ہر لحاظ سے ہر ممکن خیال رکھنا چاہیے۔ اُس سے روگردانی کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔