گلاسگو سے آشنائی  

Dec 06, 2023

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

شوکت بٹ اکثر پاکستان آیا جایا کرتے تھے ۔ قتیل شفائی کے داماد ہونے کے باعث وہ اعلیٰ ذوق کے حامل انسان تھے۔ انہوں نے پی سی آئی اے کے کئی اجلاسوں میں شرکت کی ۔ ایک بار انہوں نے گلاسگو سے فون کیا کہ میں ایک خصوصی مہمان بھیج رہا ہوں۔ انہیں بھی اپنے پی سی آئی اے کے دانشوروں سے گفتگو کا موقع فراہم کریں ۔ یہ مہمان تھے، جناب بشیر مان ۔ گوجرانوالہ کے وہ رہائشی تھے ۔ گلاسگو میں برسوں پہلے جاکر آباد ہوئے اور سکاٹش لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی عظمتوں کا جھنڈا گاڑا ۔ عالمِ اسلام کی جدید تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ کیونکہ کسی بھی غیر اسلامی ملک میں وہ پہلے مسلمان تھے جو گوروں کے ووٹ لے کر گلاسگو سٹی کونسل کے ممبر منتخب ہوئے ۔ ان کے انتخاب پر ایک زلزلہ برپا ہوگیا ، بشیر مان نے ہمیں وہ برطانوی اور سکاٹش اخبار دکھائے جن میں ان کے منتخب ہونے کی خبریں شائع ہوئی تھیں ۔ ہر اخبار کے پورے صفحے پر سیاہ حاشیے میں ایک ہی خبر تھی کہ ایک کالا شخص کونسلر منتخب ہوگیا ہے ۔برطانوی میڈیا میں کئی روز تک رونا پیٹنا اور آہ و بکا کا عالم طاری رہا ۔ بشیر مان نے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی ۔ وہ ہماری پی سی آئی اے کے کئی اجلاسوں میں مہمان خصوصی بنے ۔ 
گلاسگو کی ایک اور ناقابل فراموش شخصیت ملک غلام ربانی ہیں ۔ وہ پوٹھوہار خطے کے باسی ہیں ۔ لیکن گلاسگو پہنچ کر وہ وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ وہاں ادبی محفلیں ، جماعتیں اکثر لاہور سے تشریف لاتیں تو یہاں بھی شعر و ادب کی محفلوں کے مہمان خصوصی بنتے ۔ گلاسگو میں وہ انتہائی ہردلعزیز سماجی شخصیت ہیں ۔ انہیں بابائے امن کا خطاب دیا گیا ہے ، کیونکہ وہ پاکستانی کمیونٹی کے باہمی لڑائی جھگڑوں کے فریقین میں مصالحت و صلح کروانے کی صلاحیتوں سے بدرجہ اتم مالا مال ہیں ۔ میرے خیال میں وہ گلاسگو میں معمر ترین پاکستانی شہری ہیں ۔ برطانیہ کی کسی تنظیم نے ایک کانفرنس میں مجھے مدعو کیا ، میں اس میں شرکت کے لئے تو نہ جاسکا ، لیکن ان کی بھیجی ہوئی ٹکٹ کو میں نے سنبھال کر رکھا ۔ اور ہر سال کرائے میں اضافے کی رقم جمع کرواکر نئی ٹکٹ جاری کروالیتا ۔ گلاسگو سے آنے جانے والوں کی وجہ سے برطانیہ میں میرے کافی لوگوں سے دوستانہ تعلقات قائم ہوگئے ۔ ایک سال میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں ان دوستوں سے مل آئوں ۔ لندن میں پتہ چلا کہ جے یو پی کے رہنما پیر اعجاز ہاشمی بھی یہاں آئے ہوئے ہیں ۔ ان کے ساتھ میرا  انتہائی قریبی برادرانہ رشتہ رہا ہے اور گھریلو سطح کے تعلقات قائم ہیں ۔ ہم دونوں نے مل کر گلاسگو جانے کا پروگرام بنایا ۔ وہاں شوکت بٹ اور بشیر مان نے کسی دوست کے خالی مکان میں ہمارے قیام و طعام کا بندوبست کیا ہوا تھا ۔ 
گلاسگو میں ہماری کھانے کی دعوتیں شروع ہوگئیں ۔ ان مجالس میں چودھری محمد سرور ، شیخ سرفراز احمد، مقبول رسول ، چودھری محمد سرور کے چھوٹے بھائی  چودھری رمضان، اور دیگر کئی احباب سے ملاقاتیں ہوئیں۔شیخ سرفراز احمد کا تعلق میرے آبائی شہر قصور سے ہے ، یہ اتفاق کی بات ہے کہ وہ میرے بڑے بھائی میاں عمر فاروق کے شاگرد ِ رشید ہیں۔یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ اس دورے کے دوران قتیل شفائی بھی شہر میں موجود تھے ۔ شوکت بٹ نے قتیل شفائی ، پیراعجاز ہاشمی اور مجھے گاڑی میں بٹھایا اور ہمیں گلاسگو کی ایک دلفریب جھیل لاک لومنڈ کی سیاحت کے لئے لے گئے ۔  یہ لمحات میرے ذہن پر آج بھی نقش ہیں ۔ قتیل شفائی کا کلام ان کی زبان سے سننے کو ملا ۔ انہوں نے بعض اشعار ترنم سے گاکر سنائے ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ لاک لومنڈ کی لہریں کیف و مستی سے سرشار ہیں۔ 
اس دوران مقبول رسول اور سرفراز احمد کی شفقت سے ہمیں گلاسگو سے باہر سڑک کی اس ڈھلوان کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ،جہاں قدرت کا ایک عجیب معجزہ رونما ہوتا ہے ۔ کہ گاڑی کو ڈھلوان پر نیوٹرل گیئر میں ڈال دیں تو گاڑی واپس چڑھائی کی طرف چلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اس محیرالعقول تاریخی مقام کو دیکھنے کے لئے لوگ دنیا بھر سے دیکھنے کے لئے جوق درجوق یہاں آتے ہیں ۔ قدرت کے رنگ نرالے ہیں۔ یہ مقام تو قدرت کے شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ چودھری محمد سرور کی مہربانی ہے کہ وہ مجھے اپنی کیش اینڈ کیری دکھانے لے گئے ۔ یہ ایک عظیم الجثہ سٹور ہے ۔ یہاں ایک بہت بڑے ہال کے اندر اونچی اونچی الماریوں میں کھانے پینے کی اشیاء کا ذخیرہ کیا گیا ہے ۔ میں اس قدر بڑے سٹور کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ الماریوں کے سامنے کھڑا میں اپنے آپ کو بونا محسوس کررہا تھا ۔ ایک روز میں چودھری یعقوب کی کیش اینڈ کیری پر بھی گیا اور ان سے ملا ۔ انہوں نے اپنے کافی ہائوس میں میرے ساتھ کوئی گھنٹہ بھر بات چیت کی۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنی کیش اینڈ کیری بنائی تھی تو یہ یورپ کی سب سے بڑی دوکان تھی، جس کا افتتاح ملکہ الزبتھ نے کیا تھا۔ 
ہماری گفتگو کا مرکز و محور عراق کا بحران تھا ۔ جس نے کویت پر جارحانہ قبضہ کررکھا تھا ۔ امریکی افواج صدام حسین کو للکا ر رہی تھیں ۔ امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کی شامت آئی ہوئی تھی ۔ اسلامو فوبیا اپنے عروج پر تھا ۔ چودھری یعقوب مجھے نیچے گاڑی تک چھوڑنے آئے ۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو کبھی یہ خوف نہیں آتا کہ کسی روز آپ اپنے سٹور کا تالہ کھولنے لگیں تو کوئی سرکاری اہلکار آپ سے تالے کی چابی چھین لے اور یہ بری خبر سنائے کہ آپ کا سٹور سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے ، اس لمحے کے بعد سے اب اس سٹور سے آپ کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا ۔ چودھری یعقوب نے اثبات میں سرہلایا اور ہولے سے بولے کہ عراقی بحران کی وجہ سے یہ امکان موجود ہے ، جس کا آپ نے ذکر کیا ہے ۔ اللہ مالک ہے ۔
پاکستان کی گولڈن جوبلی کا موقع آیا تو شوکت بٹ نے مجھے فون پر بتایا کہ پاکستان کے اس یوم آزادی پر گلاسگو کے سٹی کونسل ہال میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ہے ، آپ کو اس میں ایک مہمان کے طور پر ہم بلارہے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ پروفیسر مشکور حسین یاد اپنے بیٹے کے پاس برطانیہ آئے ہوئے ہیں ۔ میں انہیں بھی اس مشاعرے میں آپ کی طرف سے مدعو کرلیتا ہوں ۔ یہ مشاعرہ کیا تھا ، خوشیوں کا ایک میلہ تھا ۔ اسی روز شہر کے ایک آزادی ریڈیو پر مجھے گفتگو کے لئے بلایا گیا ، اس گفتگو کے دوران شہر بھر سے ٹیلی فون کالوں کے ذریعے شہریوں نے مجھ سے کئی ٹیڑھے اور نوکیلے سوالات پوچھے ، گفتگو ابھی جاری تھی کہ پتہ چلا چودھری محمد سرور یہ پروگرام سن کر مجھے ملنے آگئے ہیں ۔ چودھری محمد سرور ان دنوں ایک کڑی آزمائش سے دوچار تھے ۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے مسلم رکن منتخب ہوچکے تھے ۔ لیکن ان کے خلاف میڈیا گند اچھال رہا تھا ۔ برطانوی میڈیا ان کی کامیابی کو ہضم نہ کرپایا ۔ چودھری محمد سرور نے عدالتوں میں ہرجانے کے دعوے کردیئے ۔ اللہ نے انہیں سرخرو کیا اور برطانوی عدالت نے محمد سرور کو ہر الزام سے باعزت بری کردیا ۔ اب چودھری سرور کا پاکستان کی سیاست میں طوطی بولتا ہے ، ان کے چھوٹے بھائی چودھری رمضان بھی پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کے لئے اپنا کاروبار بیٹوں کے حوالے کرکے یہاں آگئے تھے ، قضائے الہٰی سے وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ گلاسگو میں وہ انتہائی فراخدل مشہور تھے ۔ چند برس پہلے شوکت بٹ بھی دل کے عارضے میں چل بسے ۔چودھری یعقوب بھی اس دنیائے فانی میں نہیں رہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ آمین
٭٭٭

مزیدخبریں