نگران سے ہمیں ہر طرف نگرانیاں دکھائی دیتی ہیں، ویسے بھی ہر طرف ”نگران سیٹ اَپ“ کا ”رولا“ پڑا ہوا ہے۔ نگران وزیراعظم کیلئے کئی ناموں پر غور بھی ہو رہا ہے اور اس ”غوراغوری“ میں ”زورازوری“ مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اکثریتی ”مطالبان“ عاصمہ جہانگیر کو نگران وزیراعظم کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں کہ وہ شاید عوامی حلقوں میں زیادہ پاپولر نہیں۔ وہ اعلیٰ عدالتوں کے ساتھ ساتھ فوج پر بھی کڑی تنقید کرنے سے نہیں چوکتیں۔ بعض حضرات انہیں ضرورت سے زیادہ لبرل بھی سمجھتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ لبرل ہونا کبھی کبھی انسان کو خسارے میں رکھتا ہے۔ہمارے ہاں سے بعض خواتین و حضرات جب بھارت جاتے ہیں تو خود کو ضرورت سے زیادہ لبرل ثابت کرنے کیلئے ساری حدیں عبور کر جاتے ہیں، ان میں سے کئی تو مندروں کی مورتیوں اور چرنوں میں ”پرنام“ کرنے تک چلے جاتے ہیں حالانکہ ایک مسلمان کیلئے ”بتوں“ سے ایسی ”بے تکلفی“ ایمان میں خلل ڈال سکتی ہے۔
فلمسٹار شاہ رخ بھی لبرل مسلمان کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اس کیلئے انہوں نے گھر میں مندر بھی بنوا رکھا ہے تاکہ ہندو انہیں مسلمان ہونے کے باوجود ایک محب وطن بھارتی سمجھیں لیکن کنگ خان کی اس ”کاوش“ کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور گھر میں مندر رکھنے کے باوجود وہ ہندوﺅں کے دل میں گھر نہیں کرسکے۔ بھلے ہمارے وزیر داخلہ نے ذاتی سطح پر ان کے حق میں بیان دیا مگر یہ بیان شاہ رخ کے حق میں نہیں گیا۔ بھارتی وزیر داخلہ نے جواباً بیان داغ دیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت خود کرسکتے ہیں، سو ان دنوں شاہ رخ کی خوب ”نگرانی“ ہو رہی ہے۔
ادھر ہمارے سروں پر الیکشن کھڑے ہیں مگر تاحال ”نگران سیٹ اَپ“ کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں جہاں نگران وزیراعظم کے ناموں پر حکومت اور اپوزیشن میں نااتفاقی کا معاملہ ہے، وہیں 3 برسوں کیلئے ایک ٹیکنوکریٹ سیٹ اَپ کا غلغلہ بھی ہے۔ اس سیٹ اَپ کیلئے بھی کئی حضرات بہت ”اَپ سیٹ“ نظر آتے ہیں۔
علامہ طاہرالقادری نے تو دوسرے لانگ مارچ کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اسلام آباد سے پہلے لانگ مارچ کا گند بمشکل صاف ہوا ہے اور اب اگر ایک اور لانگ مارچ ہوتا ہے تو کچھ زیادہ گند پڑنے کا خدشہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس بارے علامہ طاہرالقادری کینیٹر کی بجائے احتجاجی حضرات کے ساتھ کھلے آسمان تلے سخت سردی اور بارش میں ”دھرنا“ دیں تاکہ لیڈری کا حقیقی حسن جلوہ گر ہوسکے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بات نگران سیٹ اَپ کی ہو رہی تھی، نجانے نگران حکومت کا اعلان کب ہو؟ فی الوقت تو عوام بہت ”اَپ سیٹ“ ہوچکے ہیں۔ بجلی 12، 12 گھنٹے غائب رہتی ہے، گیس کی عدم دستیابی نے بھی عوام کو بدحال کر دیا ہے۔ اب تو گیس کے ساتھ پٹرول کی قطاریں بھی نظر آنے لگی ہیں، گویا نگران سیٹ اَپ سے قبل ہی ہر جگہ عوام کی نگرانیاں جاری و ساری ہیں۔ آپ سڑکوں پر دیکھ لیں، ہر چوراہے پر رکاوٹیں اور ناکے دکھائی دیتے ہیں۔ شہر میں کہیں کہیں تو باقاعدہ مورچے سے نظر آتے ہیں۔ ہر سرکاری دفتر کے آگے یہ رکاوٹیں موجود ہیں۔ ہر جگہ آنے جانے والوں کی نگرانی ہوتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ سکیورٹی فورسز پر پھر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ مسجدوں میں نمازیوں کی نگرانی (حفاظت) کیلئے باقاعدہ پولیس تعینات ہوتی ہے مگر ٹارگٹ کلنگ تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ علمائے کرام دن دہاڑے قتل ہو رہے ہیں، عام آدمی کا تو کوئی پرسان حال نہیں۔
کراچی میں بدامنی، اغوا اور دیگر کرائم کے ساتھ ساتھ خونریزی کو لگام دینے والا کوئی نہیں۔ کہنے کو سندھ میں حکومت بھی ہے، وزیراعلیٰ، گورنر اور دیگر اعلیٰ حکام موجود ہیں مگر لگتا ہے سبھی بے بس اور بے دست و پا ہیں۔ وزیر داخلہ کی طرح سبھی صرف بیانات جاری کرکے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ قانون کے وزراءتو موجود ہیں مگر بڑے مگرمچھوں کے لئے کوئی قانون نہیں، قانون صرف دکھی اور بے بس عوام کیلئے ہے۔ انہی حالات اور ایسی ہی لنگڑی لولی جمہوریت کے ایام ہی میں عوام کہیں اور دیکھنے لگتے ہیں اگر جمہوریت عام آدمی کو امن اور انصاف دے اور ان کی ز ندگی کو آسان بنائے تو ”جمہوریت کو سر کا تاج“ سمجھے مگر بدقسمتی سے جمہوری حکومتوں کے دوران عام آدمی زیادہ دکھی اور پریشان ہوا ہے۔ عام آدمی کو تو یہ بھی پوچھنے کا حق نہیں کہ ....
کھیلی ہے کس نے خون سے ہولی بہار میں
یہ ہنس رہا ہے آگ لگا کر چمن میں کون؟
رب ذوالجلال ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین ثم آمین۔