قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ،چودھری نثار علی خان کی قیادت میں، 4فروری کو ، تیز بارش اور شدید سردی کے باوجود ،اسلام آباد میں ، مسلم لیگ ن، جماعتِ اسلامی اور جمعیت عُلماءاسلام( ف) سمیت 13اپوزیشن جماعتوں کا پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے مارچ اور الیکشن کمِشن کی عمارت کے سامنے دھرنا ، 14جنوری سے 17جنوری تک، علّامہ طاہر القادری کی قیادت میں ( بقول علّامہ صاحب) 40لاکھ لوگوں کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر کے، دھرنے سے مختلف تھا ، وہ دھرنا ۔ ون مَین شو تھا ، لیکن 4فروری کا دھرنا، 13مختلف اُلخیال سیاسی جماعتوں کا نہ صِرف ایک دوسرے سے اظہارِ یک جہتی بلکہ پاکستان کے پہلے با اختیار اور خود مختار الیکشن کمِشن کو، مزید مضبوط بنانے کے لئے تھا ، جِس الیکشن کمِشن کو تحلیل کرانے کے لئے، علّامہ القادری ، کینیڈا سے تشریف لائے اور کروڑوں روپے خرچ کر کے اپنے لانگ مارچ کی قیادت کی۔
13اپوزیشن جماعتوں کے قائدین میں سے کسی نے بھی ۔” انقلاب“۔ کا جھانسا دے کر، دھرنے میں شریک ہونے والوں سے ، اُن کے موٹر سائیکل /سکوٹر ، کاریں اور مکان نہیں بِکوائے اور نہ ہی عورتوں کے زیورات۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ،شیر خوار بچوں اور اُن کی ماﺅں کو ساتھ نہیں لائی تھی اور نہ ہی کسی جماعت کا قائد اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان کے خوف سے ، کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کئے گئے کسی بم پروف کنٹینر میں سوار تھا ۔ 13اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے ثابت کر دیا کہ وہ علّامہ القادری کی طرح موت سے نہیں ڈرتے۔
4فروری کے دھرنے میں شریک ،کسی بھی اپوزیشن لیڈر نے ، اسلام آباد کے حکمرانوں کو گالیاں نہیں دِیں ۔ انہیں اُن کے عہدوں سے برطرف کرنے کا اعلان بھی نہیں کیا کہ، سب لیڈروں کو آئین و قانون کا پاس ہے اور انہیں عِلم ہے کہ انہیں جوشِ خطابت میں ،صدر ، وزیراعظم اور وفاقی وُزراءکے بارے میں ، یہ کہنے کا اختیار نہیں کہ ۔” آج سے یہ سب کے سب سابق ہو گئے ہیں“۔ اِس لئے کہ ا،س طرح کا اعلان کوئی عقل سے پیدل شخص ہی کر سکتا ہے۔ 4 فروری کے دھرنے میں شریک ہو نے والے، اپوزیشن لیڈروں کو اپنی زبان پر مکمل کنٹرول تھا اور بیان پر بھی ۔ اُن کی زبانوں سے ایسے الفاظ نہیں نِکلے ، جنہیں بعد میں واپس لینا پڑے ۔ الفاظ واپس لینے سے بڑی شرمندگی ہوتی ہے ۔
4فروری کے دھرنے میں شریک اپوزیشن لیڈروں میں سے کوئی بھی خود کو سُپر مَین نہیں سمجھتا اور نہ ہی ۔” شیخ اُلاسلام “۔ کہلاتا ہے ۔ آئین و قانون کے ماہر اور منجھے ہوئے پارلیمنٹیرینز ہونے کے باوجود ،سب کے سب نارمل انسان ہیں۔ دلیل سے بات کرتے ہیں۔ اختلاف بھی کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی بات سُننے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں ۔ سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی کی حد تک نہیں لے جاتے اور نہ ہی استاد بحرکی طرح غُصّے سے پاگل ہو جاتے ہیں ۔ جنہوں نے کہا تھا ۔۔۔
” ہیں بہت رنج میں ، دو چار کو ماریں گے ہم
جتنا غُصّہ ہے ، رقِیبوں پہ ، اُتاریں گے ہم “
4فروری کے دھرنے میں ۔” قرآن کا نام“ ۔ استعمال نہیں کیا گیا ۔ علاّمہ طاہر القادری کی قیادت مین دھرنا اُن کی این جی او ۔” منہاج اُلقرآن“۔ ( قرآن کا راستہ )کے زیرِ اہتمام تھا ، لیکن علّامہ صاحب نے جب اپنی طرف سے برطرف کئے گئے وزیراعظم راجا پرویز اشرف سے ( اُن کی غیر موجودگی میں ) اپنی طرف سے، برطرف کئے گئے وُزراءسے جو معاہدہ کیا تو اُس پر نہ صِرف منہاج اُلقرآن کے سربراہ کی حیثیت سے بلکہ ( 6سال سے غیر فعال اور الیکشن کمِشن سے رجسٹرڈ نہ کرائی گئی اپنی) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کی حیثیت سے بھی دستخط کئے ۔ اب علّامہ صاحب نے۔” منہاج اُلقرآن“۔ کو پس پشت ڈال دیا ہے اورپارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ، اوپر سے لے کر نیچے تک پاکستان عوامی تحریک کے عہدیداروں کو بھی نامزد کر دِیا ہے۔
” جو چاہے آپ کا ، حُسن ِ کرشمہ ساز کرے “
علّامہ صاحب نے اپنی زبان ِ مبارک سے لفظ ۔” کُن“۔ کہا اور پلک جھپکتے ہی پاکستان عوامی تحریک کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ، فیڈرل کونسل اور جنرل کونسل بھی وجود میں آگئی ۔ اِس طرح کے خُدائی اختیارات،4فروری کے دھرنے میں شریک ،کسی بھی جماعت کے سربراہ کو ،حاصل نہیں ہیں ۔ 13اپوزیشن جماعتوں نے دھرنا ختم کرتے وقت، حُکمرانوں سے کوئی معاہدہ نہیں کِیا ۔ انہیں اِس طرح کا ڈرامہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
حُکمرانوں نے علّامہ القادری کا، الیکشن کمِشن کو تحلیل کرنے کا مطالبہ تسلیم نہیں کِیا ۔ وفاقی وزیرِ قانون جناب فاروق نائیک نے4فروری کے دھرنے سے ایک دِن قبل یہ بات پھر،واضح کر دی تھی کہ ۔” الیکشن کمِشن کی تحلیل کا مطالبہ غیر آئینی ہے ۔ الیکشن کمِشن تحلیل نہیں ہو گا اور نہ چیف الیکشن کمِشنر فخر اُلدین جی ابراہیم کو ہٹایا جائے گا“۔ حزبِ اختلاف کی سبھی جماعتوں کا بھی یہی مﺅقف ہے ، لیکن علّامہ القادری نے اِس مسئلہ پر ،سُپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ ۔” الیکشن کمِشن کی تحلیل کے لئے، مَیں خود سُپریم کورٹ میں دلائل دوں گا “۔ اِس اعلان کو کئی روز ہو گئے ۔ شاید موصوف ابھی تک استخارہ کر رہے ہیں ۔ سُپریم کورٹ پہلے ہی، الیکشن کمِشن کے قیام کو آئین کے مطابق قرار دے چکی ہے ۔ اب علّامہ القادری کون سی نئی دلیل پیش کریں گے ؟۔
4فروری کے دھرنے میں شریک، 13اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کا التوا نا قابلِ قبول قرار دیتے ہوئے سندھ اور بلوچستان اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ کہ اگر اِن دونوں صوبوں میں قائدِ حزبِ اختلاف نہیں ہوں گے تو ،نگران وُزرائے اعلیٰ کے تقرر کا مر حلہ کیسے طے ہو گا؟۔ سب سے اہم مطالبہ چاروں گورنروں اور اعلیٰ افسروں کو تبدیل کرنے کا ہے ۔ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے ۔ بلوچستان کے گورنر ذُوالفقار رعلی مگسی، پیپلز پارٹی میں رہے ہیں، آج کل اُن کا تعلق مسلم لیگ ق سے ہے ۔ گورنر خیبر پختونخواہ، جناب مسعود کوثر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر سابق مسلم لیگی مخدوم سیّد احمد محمود پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے اپنے تینوں بیٹوں کے حقیقی والد ہیں ۔ اُن چاروں صاحبان کی موجودگی میں صدر زرداری کی طرف سے صاف اور شفاف انتخابات کرانے دعویٰ کیسے سچ ثابت ہو گا۔
4فروری کے دھرنے میں شریک سیاسی، جماعتوں کے قائدین نے ( علّامہ طاہر القادری کی طرح) خود چاروں گورنروں کی برطرفی کا اعلان نہیں کِیا کہ انہیں، آئین کی رُو سے ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ استاد رشک نے کہا تھا ۔۔۔
” اے رشک اختیار رہا ، کُوئے یار میں
ہم نے جِسے ، وہاں سے نِکالا ، نِکل گیا “
علّامہ القادری نے ۔” کُوئے یار“۔ میں وہ اختیار استعمال کِیا جو ان کے پاس تھا ہی نہیں ۔ 4فروری کے دھرنے میں شریک اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کِیا ۔ لانگ مارچ کے بجائے شارٹ مارچ ( مختصر سا مارچ کِیا) ُٹریفک بلاک نہیں کی ۔ اسلام آباد کو No Go Area نہیں بننے دیا اور نہ ہی سرکار کے کروڑوں روپے خرچ کرائے ۔ یہ ایک پُر امن دھرنا تھا ۔ ایک” وکھری ٹائپ کا دھرنا“۔ لیکن شیخ الاسلام نے اب پانچ سات شہروں میں دھرنوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اب کینیڈین شیخ اور دھرنے بس کینیڈی صاحب امریکہ بادشاہ کو خوش رکھیں گے جس کا مقصد پاکستان کو ”ڈی سٹیبل“ کرنا ہے۔