وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا کہ ”طالبان کی نامزد مذاکراتی کمیٹی میں طالبان کا کوئی اپنا رُکن بھی شامل ہونا چاہیئے“۔ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ”ہماری تِین رُکنی مذاکراتی کمیٹی حتمی ہے اور عمران خان اور مفتی کفایت اللہ کی جگہ کسی اور کو شامل نہیں کِیا جائے گا“۔ گویا مولانا سمیع اُلحق، جماعتِ اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا عبدالعزیز پر مشتمل کمیٹی ہی طالبان کی وکالتاً نمائندگی کرے گی۔ کب تک؟اور کِس ایجنڈے پر؟ یہ بات واضح نہیں ہے کیونکہ فی الحال تو وزیرِ اعظم نواز شریف کی طرف سے یہی کہا گیا ہے کہ ”مذاکرات پاکستان کے آئین کے تحت ہوں گے اور مذاکرات سے پہلے طالبان کو ہتھیار ڈالنا ہوں گے“۔ اُدھر امیر جماعتِ اسلامی سیّد منور حسن نے کہا ہے کہ”طالبان کی مذاکرات کمیٹی میں پروفیسر محمد ابراہیم کی شمولیت کا فیصلہ فی الحال نہیں ہُوا“۔ اگر جماعتِ اسلامی نے پروفیسر محمد ابراہیم کا نام واپس لے لِیا تو کمیٹی میں صِرف مولانا سمیع اُلحق اور لال مسجد اسلام آباد کے خطیب(حکومتِ پاکستان کے ملازم) مولانا عبدالعزیز ہی رہ جائیں گے۔
وزیرِ اعظم ہاﺅس سے جاری کئے گئے اِس اعلان کے بعد کہ”وزیرِ اعظم نواز شریف نے مولانا سمیع اُلحق کو طالبان سے مذاکرات کا کوئی"Task" نہیں دِیا تھا، مولانا سمیع اُلحق اب حکومت اور طالبان میں ثالث نہیں بلکہ طالبان کی طرف سے فریق ہیں۔ موصوف”طالبان کے باپ“ تو پہلے ہی کہلاتے ہیں۔ مولانا سمیع اُلحق طالبان کی طرح ہتھیاروں سے نہیں لڑتے بلکہ زبان و بیان سے لڑتے ہیں۔4فروری کو مختلف نیوز چینلوں پر اُن کی"Body Language" دِیدنی تھی۔ فارسی کے نامور شاعر حافظ شیرازی نے اپنے بارے میں کہا تھا۔
”گدائے گوشہ نشِینی، تَو حافظا ،مخروش!“
یعنی اے حافظ! تُو ایک گوشہ نشِین فقِیر ہے غُل نہ مچا۔ لیکن مولانا سمیع اُلحق گوشہ نشِین فقِیر نہیں ہیں۔جمہوریت پر یقین رکھتے تھے اور جمہوری عمل سے سینٹ آف پاکستان کے رُکن بھی رہے ہیں لیکن کئی سالوں سے طالبان کے خونخوا رلشکر وںکے پِیر دستگِیر ہیں۔پریس کانفرنس میں اُن کے دائیں بائیں پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا عبدالعزیز بیٹھے تھے جب مولانا سمیع اُلحق نے کہا”حکومتی کمیٹی کو ہمارے معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے۔ طالبان کی طرف سے ہمیں مکمل مینڈیٹ دِیا گیا ہے۔ ہر مسجد ہمارا دفتر ہے اور مسجد کا کوئی مﺅذن یا کوئی ”بچہ“ بھی ہوگا تو، حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو اُس سے بات کرنا ہوگی“۔فی الحال حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سینئر رُکن اور پُرانے زمانے میں کالج کے اُستاد جناب عرفان صدیقی کا ردِ عمل نہیں آیا کہکیا وہ عُمر کے اِس حِصّے میں واقعی طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں کسی بچے سے مذاکرات کریں گے؟۔ مولانا سمیع اُلحق نے یہ نہیں بتایا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے بات چِیت کرنے والے بچے کی کم سے کم عُمر کیا ہو گی؟۔مولانا سمیع اُلحق نے مزید کہا کہ”مَیں بات چیت کے لئے طالبان کو اسلام آباد بھی بُلوا سکتا ہُوں لیکن مجھے حکومتی روّیے سے آپریشن کی بُو آرہی ہے۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نیک نِیّت ہیں لیکن دباﺅ میں آجاتے ہیں۔ امریکی دباﺅ میں!“ مولانا سمیع اُلحق کے اندازِ تخاطب سے مجھے مسلمانوں کی تاریخ کے کئی کردار یاد آگئے۔ آدھی دنیا کا فاتح امیر تیمور ہندوستان میں مُغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدّین بابر اور افغانستان میں دُرانی سلطنت کا بانی احمد شاہ ابدالی۔
امیر تیمور نے جب1402ءمیں انگورہ (موجودہ انقرہ) پر حملہ کرکے تُرکیہ کے مسلمان بادشاہ سُلطان با یزید یلدرم کو شکست دی تھی تو اُس (امیر تیمور) کا مقصد تُرکیہ میں”شریعت کا نفاذ“ نہیں تھا اور جب امیر تیمور با یزید یلدرم کو اُس کے مرنے تک ایک بڑے پنجرے میں بند کر کے اپنے ساتھ گھُماتا پھِراتا رہا مفتُوح بادشاہ کے لئے فاتح بادشاہ کا روّیہ بھی ”شریعت کے مطابق“ نہیں تھا۔اُن دِنوں ”ایٹم بم“ ایجاد نہیں ہُوا تھا۔ اگر تُرکیہ”ایٹمی قوت“ ہوتا تو وہ ایٹم بم گِرا کر امیر تیمور کے لشکر کو نیست و نابود کر دیتا۔ ظہیر الدّین بابر (وفات 26دسمبر 1530ئ) نے ہندوستان کے مسلمان بادشاہ محمد ابراہیم لودھی کو شکست دے کر 1526ءمیں ہندوستان کے تاج و تخت پر قبضہ کِیاتو ابراہیم لودھی کے پاس بھی ایٹم بم نہیں تھا۔ بابر کا مقصد بھی ہندوستان میں”شریعت کا نفاذ“ نہیں تھا۔ معزول اور مقتول بادشاہ محمد ابراہیم لودھی کی والدہ تاحیات بادشاہ بابر کی مہمان(قیدی) رہی۔ آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دَور میں بھی ہندوستان میں”شریعت“ نافذ نہیں تھی اور انگریزی حکومت کو بھی”شریعت“ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
احمد شاہ ابدالی (وفات 1773ئ) نے ہندوستان پر سات حملے کئے تھے۔ پہلا حملہ 1748ءمیں مُغل بدشاہ محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں کِیا اور آخری حملہ 1767ءمیں۔ اِن حملوں سے ابدالی کا مقصد ہندوستان میں”شریعت کا نفاذ“ نہیں تھا بلکہ لُوٹ مار تھا۔ پہلے حملے میں ابدالی کے لشکریوں نے دِلّی اور دوسرے شہروں میں قتل و غارت کا بازار گرم کِیا۔ شُرفاءکی بہو بیٹیوں کو اُٹھالے گئے۔ خود احمد شاہ ابدالی نے، محمد شاہ رنگیلا کی پھوپھی سے شادی کر لی اور کئی مُغل شہزادیوں سے ابدالی کے بیٹوں ، بھتیجوں اور دوسرے لشکریوں نے نکاح کر لئے۔ محمد شاہ رنگیلا کے دَور میں عوام بدحال تھے اور اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں تھا۔ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں بھی مُغل سلطنت ”ایٹمی قوت“ نہیں تھی۔
پاکستان کے شہری ہونے کے باوجود۔ مولانا سمیع اُلحق اپنے طرزِ عمل سے مجھے۔ احمد شاہ ابدالی ثانی لگتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے لشکریوں نے سامنے آکر دہشت گردی، غارت گری اور لُوٹ مار کی تھی لیکن مولانا صاحب کے فرزندانِ ارجمند پاک فوج کے جوانوں/افسروں اور معصوم اور بے گناہ لوگوں،جن میں بوڑھے، عورتیں اور بچّے بھی شامل ہیں، کا چھُپ کر قتلِ عام کر رہے ہیں اور اُن کا مقصد پاکستان میں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا ہے۔مسلمانوں کاچھُپ کر قتلِ عام کرنا اِسلام کی رُو سے مناسب ہے یا نہیں ؟۔مولانا سمیع اُلحق اور اُن کے مسلک کے دوسرے عُلما ہی بتا سکتے ہیں۔دُنیا کی واحد اسلامی مملکت”ایٹمی طاقت“ اُن سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہے۔ یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے یا نہیں؟کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وزیرِ اعظم نواز شریف تو یہی چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور پاکستان میں لوگوں کا جان و مال محفوظ ہو جائے لیکن کیا مُتفقہ آئِین کے تحت عوام کی منتخب پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ کو چند ہزار لوگوں کی خواہشات کے تابع کر دِیا جائے گا؟۔ مَیں تو پاکستان کے ایک عام شہری کی حیثیت سے دُعا ہی کر سکتا ہُوں کہ”یا اللہ! احمد شاہ ابدلی ثانی مولانا سمیع اُلحق کے دِل کو نرم کر دے! قارئین ِ کرام سے درخواست ہے کہ وہ زور سے آمِین کہیں!