پاکستان میں ایک محدود اشرافیہ بار بار اقتدار میں آتی ہے، سیاسی اقتدار اور قوت پر چند مخصوص ہاتھوں کا قبضہ ہے۔ یہ ہاتھ ہمارے ملک کو بے دھڑک لوٹتے ہیں اور ہماری قومی بدقسمتی دیکھئے کہ ہمارے وطن میں لوٹنے والوں کا احتساب کبھی نہیں ہوتا اور شاید کبھی نہ ہو گا۔ کوئی یہ نہیں سوچتا اور کوئی سیاست دان اس بات پر نادم نہیں کہ جب ریاستی اداروں کو بے دردی سے اور مسلسل لوٹا جاتا رہے تو پھر خود ریاست ناکام ہو جاتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ہمارے ملک کا شمار کرپشن میں سرفہرست ملکوں میں کیوں ہوتا ہے۔ کیا ہمارے ملک کے غریب سے غریب تر ہونے اور ہمارے سیاست دانوں کے ا میر سے امیر تر ہونے میں بنیادی وجہ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن نہیں؟ جس ملک کے حکمران بے خوفی سے اور بغیر کسی شرم و حیا کے کرپشن کر رہے ہوں وہاں سرکاری اداروں کے ملازم اور افسر دلیری سے کرپشن کیوں نہیں کریں گے۔ بقول احمد ادریس…؎
کھایا گیا ہے بانٹ کے کس اہتمام سے
جیسے مرا وطن کوئی چوری کا مال تھا
جس ملک کی بیشتر آبادی مالِ حرام کمانے میں بری طرح ملوث ہو چکی ہو وہاں اگر آپ کی ملاقات کسی ایماندار سرکاری ملازم سے ہو جائے تو یقیناً خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ گذشتہ دن مجھے اکی ذ اتی کام کے لئے گوجرانوالہ میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے دفتر میں جانا پڑا۔ مجھے سکول کے عبوری الحاق کی کارروائی مکمل کروانے کے لئے نہ تو کسی رشوت دینے کے ناپسندیدہ عمل سے گزرنا پڑا اور نہ ہی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے کسی ملازم نے ہمارے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے کوئی منفی حربہ استعمال کیا۔ بورڈ کے جن ملازمین خاص طور پر نصیر بٹ سے ہمیں واسطہ پڑا، انہوں نے کمال خندہ پیشانی اور خوش مزاجی سے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ میرے لئے یہ تصور کرنا ہی ناممکن تھا کہ آج کے دور میں بھی کسی سرکاری ادارے کے ملازمین دولت کے لالچ اور طمع کے بغیر بھی آپ سے تعاون کر سکتے ہیں۔ جب ہمارے تمام امور بخیر و خوبی سرانجام پا گئے تو میں نے بورڈ کے ملازم نصیر بٹ کو جھجکتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمارا ایک جائز کام بغیر کسی لالج کے کر دیا ہے اور ہمیں غیر ضروری پریشانی سے بھی بچایا ہے اب آپ ہم سے مٹھائی کھا لیں۔ بورڈ کے ملازم کا جواب تھا کہ آپ اگر حقیقتاً یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو بورڈ کے دفتر میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور ہم نے آپ کے ساتھ کوئی ایسا طرز عمل اختیار نہیں کیا جس طرز عمل کی وجہ سے تمام سرکاری ادارے بدنام ہیں تو آپ نماز پڑھ کر ہمارے لئے دعا کر دیں، ہمیں اللہ تعالیٰ خود سب کچھ دے دے گا۔ مجھے بورڈ کے ملازم کا یہ جواب سن کر بے تحاشہ خوشی ہوئی۔ کاش ہمارے سرکاری اداروں کے تمام ملازمین کا رزق دینے والے مالک حقیقی خدائے بزرگ و برتر پر ایسا ہی یقین اور ایمان ہو۔ کاش ہمارے تاجر بھی یہی سوچیں کہ رزق تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لئے ناجائز منافع کمانے کا عمل بھی حرام ہے۔ کاش کبھی ہمارے حکمران بھی یہ سوچیں کہ اگر ایک سرکاری ادارے میں معمولی تنخواہ لینے والا ملازم رشوت کے بغیر زندگی گزار کر اپنے اللہ کی رزق رسانی پر اپنے پختہ ایمان کا اظہار کر سکتا ہے تو کیا اگر ہمارے حکمران اپنے خاندان کے لئے مزید کارخانے نہیں لگائیں گے تو کیا اُن کا رزق ختم ہو جائے گا۔ جن کے پاس اربوں اور کھربوں روپے نہیں ہیں وہ بھی تو روٹی کھا رہے ہیں۔ پھر حکمران طبقہ کھربوں روپے کی دولت کے مالک ہوتے ہوئے بھی مزید دولت کی ہوس اپنے دل میں کیوں رکھتا ہے؟ کیا یہ کھربوں روپے ان کی تاریک قبروں کے اندر روشنی کر سکتے ہیں۔ میں یہاں یہ بھی ا عتراف کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں مجھے گوجرانوالہ بورڈ کے ملازم کے جواب پر خوشی ہوئی وہاں مجھے اپنے عمل پر شرمندگی بھی ہے کہ میں نے گوجرانوالہ بورڈ کے ملازم کو مٹھائی کھلانے کی پیش کش کیوں کی۔ اگرچہ اس مٹھائی کا تعلق رشوت سے ہر گز نہیں تھا کیونکہ ہمارا کام تو کسی طلب، خواہش اور لالج کے بغیر کر دیا گیا تھا۔ اس لئے میں برملا اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور ہر اُس سرکاری ملازم کے لئے دعاگو ہوں جس نے کرپشن کے سمندر میں بھی اپنی دیانت داری کا جزیرہ آباد کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں کرپشن کے سمندر میں نہانے والوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے لیکن دیانت داری کے جزیروں کو آباد کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن یہی کم تعداد والے ہمارے معاشرے کا فخر ہیں، ہمیں ان کو سلامِ عقیدت پیش کرنا چاہئے۔
ہمیں ان کو سلامِ عقیدت پیش کرنا چاہئے
Feb 06, 2014