5 فروری کا دن پاکستان میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن منانے کے ساتھ ساتھ ناصرف وطن عزیز اور آزاد کشمیر بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں کشمیری موجود ہیں وہاں خطہ مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسندوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ 1989ء میں جب کشمیری نوجوانوں نے پے در پے بھارتی عیاریوں، مکاریوں اور دھوکے بازیوں کے بعد آزادی وطن کی تحریک کو ایک بار پھر خون کی آبیاری کرکے نئے ولولے سے سینچا تب سرفروشان وطن اپنے اس نیک اور جائز کاز کو آگے بڑھانے کیلئے سروں کو ہتھیلی پر رکھ کر بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اس فرمان کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ کی آزادی کیلئے میدان عمل میں نکل کھڑے ہوئے۔ اس دوران 1989ء میں جماعت اسلامی بھی آئی جے آئی کے پلیٹ فارم میں شامل تھی اس وقت کے سربراہ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم نے کشمیریوں کی حمایت میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اگلے سال 1990ء کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر میاں محمد نواز شریف کے مطالبہ پر مرکز میں موجود پیپلز پارٹی کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے 5 فروری کو سرکاری سطح پر یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ 1990ء کو اسی روز قائد مسلم لیگ کی قیادت میں تاریخ کی طویل ترین انسانی زنجیر بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔ وطن کی اس آزادی کیلئے ناصرف نوجوان آگے آئے بلکہ معمر خواتین و حضرات سمیت نوجوان لڑکیوں نے اپنی پاک دامن عصمتوں اور زندگیوں کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا مگر افسوس کاز کی خاطر اس لڑائی پر عالمی ضمیر متعدد بار جھنجوڑنے کے باوجود بیدار نہ ہو سکا۔ انسانی حقوق کی نام نہاد عالمی تنظیمیں اور ادارے مصلحت کا شکار ہو کر رہ گئے۔ ایسے میں بلکتی کشمیری قیادت اور نوجوانوں کی اشک شوئی اور انکے صالح کاز کو زندہ رکھنے کیلئے ڈاکٹر میاں محمد نواز شریف انکی جماعت اور ڈاکٹر مجید نظامی ہی میدان عمل میں کشمیریوں کے شانہ بشانہ رہے ان ہر دو حضرات کی سحر انگیز شخصیات نے کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے کی بھارتی اس تکرار کے خلاف عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے ہر طرح کے جتن کئے۔ متعدد دفعہ بھارتی رہنمائوں نے کشمیر میں استصواب رائے کے حق کو جو اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو دیا تھا پر عمل کرنے کی حامی بھری حتیٰ کہ 1999ء کے اوائل میں بھارتی وزیراعظم لاہور آئے اور انہوں نے کشمیر کے مسئلے کے جامع حل کے سلسلے میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر میاں محمد نواز شریف سمیت کشمیری عوام کے موقف کی تائید کی لیکن ہمارے طالع آزما فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے سانحہ کارگل رونما کر ڈالا بعدازاں اپنے غیر فطری اور غیر قانونی حکمرانی کی طوالت کیلئے امریکی خوشنودی یا پھر بھارتی مکارانہ چالوں میں آ کر مسئلہ کشمیر کے قومی موقف سے ہٹ کر مختلف آپشن پیش کئے جس کے باعث پاکستان اس مسئلے کے حوالے سے دفاعی پوزیشن پر چلا گیا اور یوں مشرف نے اس مسئلے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔آفرین صد آفرین قائدین مسلم لیگ اور ڈاکٹر مجید نظامی پر جنہوں نے ہر سال 5 فروری بھارت کے ظلم و استبداد اور ہٹ دھرمی کیخلاف اور کشمیریوں کی لازوال جدوجہد آزادی کی حمایت میں یہ دن تجدید عہد کے طور پر منایا ہے۔ اس روز نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام ایک پروقار تقریب سالہا سال سے منعقد ہو رہی ہے جس میں آزادی پسند ہر ذی روح کشمیریوں کی اس جائز جدوجہد کا حامی نظر آتا ہے۔ سابق صدر زرداری ٹولے نے اپنے اتحادیوں بشمول اے این پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر مشرف سے بھی چار قدم آگے جانے کی ناکام کوششیں کیں۔ بھارت کے ساتھ امن کی آشا کے نام سے پینگیں بڑھانے اور بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ کرکے کشمیریوں کی کمر پر چھرا گھونپا گیا۔ تمام تر ان خباثتوں اور مصلحتوں کے باوجود آج بھی پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ راقم دست دعا ہے کہ قادر مطلق نے جس طرح وطن عزیز کے حصول کا سہرا بانی پاکستان قائداعظم اور مسلم لیگ کے سر سجایا تھا بالکل اسی طرح قائداعظم کے فرمان ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ کی آزادی کا سورج مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ہی طلوع ہو۔ قائد مسلم لیگ ڈاکٹر میاں محمد نواز شریف جس طرح وطن عزیز کو گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف گامزن کر رہے ہیں اسی طرح کشمیریوں کو بھارتی چنگل سے آزادی دلا کر اقوام عالم میں نئی تاریخ رقم کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو جائیں۔ آمین۔