ملتان…شمیم اصغر رائو
توانائی کا بحران ہر سال شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آئے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اگرچہ حکومت توانائی کے بحران کو اولین ترجیح قرار دے رہی ہے اور اس پر کام بھی جاری ہے لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ ترجیحات کے تعین میں کہیں نہ کہیں کوتاہی یا غفلت ہے یا پھر بدنیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی طلب میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے بجلی کا بحران اپنے عروج پر تھا اب اس میں گیس کا بحران بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس سال سرد موسم میں سی این جی کی مسلسل بندش نے سفید پوش طبقے کو خاص طور پر متاثر کیا ہے۔ اب سردیاں اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہیں اور دو تین ماہ کے بعد جب گرمی اپنے عروج پر آئے گی تو سات آٹھ گھنٹے کی موجودہ لوڈشیڈنگ میں کس قدر اضافہ ہو گا اسے سوچ کر ہی ان سردیوں میں بھی پسینہ آ جاتا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ تھر کول کے بجلی منصوبے سے سستی بجلی پیدا کرنے اور انرجی بحران پر قابو پانے میں کافی مدد ملے گی لیکن اس منصوبے پر بھی کافی عرصہ درکار ہو گا اور 2017ء سے پہلے اس منصوبے سے جزوی طور پر بجلی حاصل ہونا شروع ہو گی۔ بیوروکریسی کی بدنیتی اور نااہلی کا اظہار یہاں سے ہوتا ہے کہ اس نے فوری طور پر بجلی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے جو وسائل موجود ہیں ان سے استفادہ نہیں کیا۔ مثلاً ملتان میں قیام پاکستان سے لیکر چند سال قبل تک میسکو پاور پلانٹ 10 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا رہا ہے۔ اس کی مرمت وغیرہ کا کام بھی ہوا تھا لیکن چند سال قبل اسے چلنگ پلانٹ چالو نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔ دراصل گزشتہ ایک عشرے میں بااثر طبقہ اس پلانٹ کے شہر کے وسط میں ہونے اور اس کی اراضی انتہائی قیمتی ہونے کی وجہ سے اس اراضی کو ہتھیانے کے چکروں میں رہا ہے۔ غنیمت ہے کہ انہیں کامیابی نہیں ہو پائی۔ یہ پلانٹ اب بھی موجود ہے اور چالو نہ ہونے کے باوجود اس پر ہر ماہ بھاری اخراجات بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن عملہ اور مشینری کی دیکھ بھال پر اخراجات اپنی جگہ موجود ہیں۔ اب حال ہی میں اٹلی کی حکومت کی جانب سے ملتان کو کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے کی پیشکش سامنے آئی ہے۔ اٹلی کے ماہرین مقامی صنعتکار شیخ احسن رشید کی دعوت پر ملتان کا دورہ کر کے بھی گئے ہیں اور ان کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملتان میں کوڑے کرکٹ سے بجلی کی پیداوار نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس پیداوار میں بتدریج اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ ابتداء میں 15 سے 20 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی اور پھر بڑھتے بڑھتے یہ 35 سے 40 میگاواٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹلی کی حکومت اس کی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرنے کو تیار ہے اگر ایسا ہو جائے تو ملک بھر میں کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا نہ صرف مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ میونسپل ایڈمنسٹریشنز کو کوڑے کرکٹ کی فروخت سے معقول آمدنی بھی شروع ہو گی۔ کوڑے کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے کے چھوٹے چھوٹے پلانٹ تمام بڑے شہروں میں نصب ہو جائیں تو ایک طرف شہریوں کے کوڑے سے نجات کے مسائل حل ہوں گے تو دوسری طرف سستی بجلی کے حصول کیلئے ایک ایسا راستہ ہموار ہو جائے گا جس پر چلتے ہوئے پورے ملک میں سینکڑوں ایسے پلانٹ لگا کر بے روزگاری میں کمی ممکن ہو گی اور توانائی بحران حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اٹلی کی کوڑے کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی تقریباً تمام یورپی ممالک سے بہتر ہے۔ اس معاملے میں انہوں نے چین کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مقامی صنعتکار شیخ احسن رشید کے اٹلی کی حکومت کے ساتھ تعلقات سے استفادہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وہ اپنی سطح پر اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں لیکن ان کی کوششوں میں حکومتی کوششیں اور وسائل بھی شامل ہو جائیں تو یہ کام تیز رفتاری سے مکمل ہو سکتا ہے۔
جنوبی پنجاب میں قائداعظم سولر پارک پر کام شروع کر دیا گیا ہے لیکن بجلی اور انرجی کی ہر سال بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر سولر انرجی کے حصول کے نظام کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ گھریلو سطح پر سولر پینل کی زیادہ سے زیادہ تنصیب کے لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ شہریوں کو آسان اقساط پر یہ سولر پینل مہیا کرے اور بلاسود قرضے بھی دے۔ واپڈا کو بھی یہ ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے کہ وہ سولر پینل کم بجلی استعمال کرنے والوں کو نصب کر کے دے اور بعدازاں اس کی رقم بجلی کے بلوں کی طرح وصول کرے۔ ڈیزل سے چلنے والے تمام ٹیوب ویلوں کو سولر سسٹم پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کئے جا سکتے ہیں۔ تمام پٹرول پمپ مالکان کو 3 ماہ کے اندر سولر سسٹم پر منتقل کرنے کے احکامات دئیے جائیں تو اس سے بھی بجلی میں کافی کمی ہو سکتی ہے۔ اگر ان پمپ مالکان کو اس کے لئے قرضے بھی دینے پڑیں تو دریغ نہیں کیا جانا چاہیے۔ ملتان میں پٹرول کے بغیر چلنے والی موٹر سائیکلوں کی تیاری کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے حکومتی وسائل فراہم کئے جائیں تو سولر سسٹم پر موٹر سائیکلیں اور کاریں چلائی جا سکتی ہیں۔ گھروں میں استعمال ہونے والے چولہے اور سٹریٹ لائٹ کو سولر سسٹم پر منتقل کر دیا جائے تو اس بحران کو فوری حل کرنے کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ چائنا کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سولر انرجی پر پوری توجہ دے تو یہ اتنی بڑی صنعت ہے کہ پاکستان میں صنعتی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ نوجوانوں کو بے روزگاری سے نجات کیلئے اگر تربیت فراہم کر دی جائے اور انہیں سولر انرجی کے منصوبوں پر کام کرنے کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کر دئیے جائیں تو کئی مسائل ایک ساتھ حل ہو سکتے ہیں۔ سولر سمال انڈسٹریز کے فروغ سے سولر ٹیوب ویل‘ سولر پنکھے‘ بلب‘ بیٹریاں‘ سولر چولہے‘ سولر کاریں اور سولر موٹر سائیکلیں بنانے کیلئے صنعتیں ملک میں قائم ہو سکتی ہیں لیکن اس سارے کام کے لئے بیوروکریسی کے اس طبقے پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہو گی جو قوم کے سولر سسٹم پر منتقل ہونے کو پسند نہیں کرے گا کیونکہ ان کی ’’آمدنی‘‘ متاثر ہونے کے خدشات ہیں۔ قوم اگر سولر انرجی پر منتقل ہو گئی تو واپڈا کے لاکھوں افراد کی اوپر کی آمدنی ختم ہو گی اور وہ سولر انرجی کا فروغ کسی قیمت پر نہیں چاہیں گے۔ انرجی بحران کے حل کیلئے حکمرانوں خصوصاً شریف برادران کو اس سوچ میں بھی تبدیلی لانا ہو گی کہ بڑے بڑے منصوبوں پر ہی کام کیا جائے اور یہ منصوبے ان سے منسوب ہوں۔ اگر چھوٹے منصوبوں پر کام کریں گے تو قطرہ قطرہ آخرکار دریا کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔