نفاذ شریعت اور امریکی فوج کے انخلا تک قیام امن ممکن نہیں‘ سمیع الحق : خدشات دور کریں گے‘ حکومتی کمیٹی

Feb 06, 2014

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ اے ایف پی+ ایجنسیاں)  طالبان کی نامزد کمیٹی کے سربراہ اور جے یو آئی (س) کے رہنما مولانا سمیع الحق  نے کہا ہے کہ  جب تک امریکہ خطے  میں  رہے  گا اس وقت تک خطے  میں  امن نہیں ہو گا۔  جھگڑا اس وقت یہ ہے کہ غیروں  کی جنگ سے  نکلنا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کے تحت یوم یکجہتی کشمیر ریلی سے خطاب اور بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ طالبان  آئین پر عملدرآمد  کی جنگ لڑ رہے ہیں،  پوری شریعت  بھی نافذ ہو جائے تو  امریکہ کی موجودگی  میں مسئلہ  حل نہیں ہو گا۔  وزیراعظم بے اختیار اور بے بس ہیں۔ وزیراعظم  ڈرون حملے نہیں رکوا سکتے اور خارجہ پالیسی بھی تبدیل نہیں کر سکتے۔  حکومت خود بااختیار نہیں کمیٹی کو کیا بااختیار بنائے  گی۔ وزیراعظم نام نہاد   دہشت گردی  کے خلاف جنگ سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ حکومتی کمیٹی کو بتا دیا ہے کہ ہمارے پاس اختیار ہیں مگر آپ بے اختیار ہیں۔ عمران خان  کمیٹی میں شامل نہیں ہوئے،  اس پر  ہمیں افسوس ہے۔ عمران خان کے ساتھ اس وقت وہی  لوگ ہیں جو پرویز مشرف  کے ساتھ تھے۔ عمران کے ساتھ ہماری ہمدردیاں ہیں۔  مذاکرات  کے معاملے  کو متنازعہ  نہ بنایا جائے۔ آئین میں قرآن اور سنت کی بالادستی  کا  حکم ہے مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ ہمارے  طالبان بھائی  افغانستان میں غیرملکی تسلط  کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں۔ افغان طالبان  آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قبائلی  علاقوں کے طالبان  اپنی نہیں ہماری جنگ لڑ رہے ہیں۔  اس وقت جو حملے کر رہے ہیں وہ  مذاکرات نہیں کر رہے۔ طالبان حق پر ہیں، وہ قرآن و سنت کی بالادستی کے لئے لڑ رہے ہیں، طالبان کے خلاف آپریشن پورے ملک میں آگ لگ دیگا۔  ہماری  کمیٹی  نہ حکومت کی ہے نہ طالبان کی۔  ہم حکومت اور طالبان کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے۔  صحافی  کے سوال  پر کہ  وزیراعظم  کا کہنا ہے طالبان کا  نمائندہ  بھی آپ کی کمیٹی میں  ہونا چاہئے۔  مولانا سمیع الحق  نے  کہا کہ اگر طالبان  کہیں  جنرل راحیل  اور وزیراعظم  بھی کمیٹی میں ہوں تو کیا یہ معقول  بات ہے۔ یہ مطالبہ بے جا ہے کہ  ہماری کمیٹی میں طالبان  کا نمائندہ شامل کیا جائے۔ یہ مطالبہ  ایسا ہی ہے جیسے ہم  کہیں کہ سرکاری کمیٹی میں صدر کو  بھی شامل کیا جائے۔ آئی این پی کے مطابق مولانا سمیع الحق نے کہا کہ اگر وزیراعظم کا یہ مطالبہ ہے تو ہم بھی جوابی مطالبہ کرتے ہیں کہ صدر ممنون حسین کو بھی حکومتی تشکیل کردہ کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ جب تک حکومت ملک میں شریعت نافذ نہیں کرتی اور افغانستان سے امریکی قیادت میں افواج کا مکمل انخلا نہیں ہو جاتا ملک میں امن کے قیام کے کوئی امکانات نہیں۔ میڈیا سے گفتگو میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے جب حکومت کے پاس اختیار نہیں تو حکومتی کمیٹی کیسے بااختیار ہو سکتی ہے، ہماری کمیٹی با اختیار ہے، قیام امن اور مذاکرات کی کامیابی کے لئے  حکومت اور طالبان  کے درمیان پل کا کر دار ادا کرنا چاہتے ہیں، اب حکومتی کمیٹی کے ارکان ملاقات کے لئے رابطے کر رہے ہیں، اپنی کمیٹی سے مشاورت کے بعد ملاقات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مولانا سمیع الحق جنوبی وزیر ستان میں  آپریشن کے متاثرین کے احتجاجی کیمپ بھی گئے اور ان سے اظہار یکجہتی کیا۔ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے لئے حکومت کی طرف سے قائم کر دہ کمیٹی کے ارکان نے ہماری کمیٹی سے ملنے کے لئے رابطہ کیا ہے تاہم اس پر میں ازخود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ، کمیٹی کے دیگر ارکان سے مشاورت کے بعد حکومتی کمیٹی سے ملاقات کا فیصلہ کیا جائے گا، مذاکرات تو طالبان اور حکومت کے درمیان ہونگے ہم نے پیغام رسانی کا فریضہ سر انجام دینا ہے، حکومت نے بھی ہم پر اعتماد کیا ہے اور ہماری کوشش ہو گی کہ ملکی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششیں کامیاب ہوں، اگر ہم درمیان میں نہ ہوتے تو حکومتی کمیٹی ایک ماہ تک بھی طالبان سے رابطہ نہ کر سکتی، مذاکرات کے لئے طالبان اور حکومت کی سمت درست ہے نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، طالبان غیر ملکی تسلط سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کا مطالبہ قیام امن، غیر ملکی تسلط کا خاتمہ اور اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ جے یو آئی (س) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا عاصم مخدوم سے ملاقات میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ حکو مت سنجید گی کا مظاہرہ کرے تو مذاکرات کی کا میابی یقینی ہو سکتی ہے‘ حکمران امریکہ سے خوفزدہ ہو رہے ہیں مگر امن کیلئے مذاکرات کی کا میابی ناگزیر ہو چکی ہے‘ حکو مت مذاکرات کیلئے شرائط رکھنے کی کوشش نہ کرے تو انکے لئے بہتر ہو گا‘ ملک میں ہونیوالی حالیہ دہشت گردی میں بھارت سمیت غیرملکی ملک دشمن قوتیں ملوث ہیں۔ طالبان کاکہناہے کہ وہ کسی بھی جگہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن حکمران امر یکہ کی ناراضگی سے خوفزدہ ہو رہے ہیں، حکمرانوں نے امر یکہ سے ہی خوفزدہ ہو نا ہے تو مذاکرات کا عمل کیوں شر وع کیا ؟۔  پاکستان میں امن اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مذاکرات اور انکی کا میابی ضروری ہے اور اگر حکو مت سنجید گی کا مظاہرہ کر ے تو مذاکرات کی کا میابی یقینی ہو سکتی ہے، ملک میں ہونیوالی حالیہ دہشت گردی میں غیر ملکی طا قتیں ملوث ہیں جن کو قوم کے سامنے بے نقاب کر نے کیلئے حکمرانوں کو اقدامات کرنے چاہئے تاکہ قوم کو بھی اصل حقائق معلوم ہوسکے۔ سمیع الحق نے کہا کہ ہم نہ ہوتے تو حکومت کا طالبان سے رابطہ آسان نہ ہوتا۔ کچھ طاقتیں ملک میں امن نہیں چاہتیں۔ نائن الیون کے بعد مشرف کی پالیسیوں کے باعث ملک عذاب میں پڑ گیا، پوری قوم دن رات مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعا گو ہے۔ ہمارا حکومتی ٹیم سے یہی رابطہ ہوا ہے کہ ہم بیٹھنا چاہتے ہیں بیٹھیں گے تو بات ہو گی ہم سے میجر (ر) عامر، رحیم اللہ یوسفزئی نے رابطہ کیا ہے۔ طالبان نے نہیں کہا کہ وہ آئین پاکستان کو نہیں مانتے یہ پرانی باتیں ہیں جنگ میں سب کچھ کہا جاتا ہے حقیقت میں ان کی جنگ یہ ہے کہ ملک سے غیر نکل جائیں ملک آزاد ہو اور اس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا نظام نافذ ہو اور ہمارے قبائل میں جو جرگہ اور عدل کا سسٹم تھا وہ یہ چاہتے ہیں اور امن چاہتے ہیں، تین مسئلے ہیں ایک امن دوسرا غیروں کے تسلط یس آزادی اور اول و آخر ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد چارہ نہیں، ہمارے مسائل حکمرانوں اور مارشل لائوں سے حل نہیں ہو سکتے، ملک تباہ ہوتا رہا حکومت کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ ثناء نیوز+ آن لائن) حکومتی مذاکراتی ٹیم نے طالبان رابطہ کار کمیٹی سے رابطہ کیا ہے اور مذاکرات کا وقت جلد طے کرنے پر بات چیت کی گئی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن رحیم اللہ یوسفزئی نے پروفیسر ابراہیم کو فون کیا۔ پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ رحیم اللہ یوسفزئی نے مذاکرات کیلئے وقت اور مقام طے کرنے کیلئے فون کیا تھا۔ حکومتی کمیٹی کا پیغام مولانا سمیع الحق تک پہنچا دیا ہے۔ مشاورت سے جلد مذاکرات کا وقت اور مقام طے کر لینگے۔ نجی ٹی وی کے مطابق حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی طرف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر ابراہیم نے جواباً کہا کہ ملاقات کیلئے طے کئے گئے وقت پر پہنچ جائینگے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی مولانا سمیع الحق سے بھی رابطہ کرے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے قائم حکومتی و ثالثی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس آج متوقع ہے۔ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے کوارڈینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ طالبان کمیٹی کے ساتھ آج ملاقات متوقع ہے، انہیں جو بھی خدشات ہیں دور کرینگے اور اپنے خدشات سے انہیں آگاہ کرینگے۔ طالبان کمیٹی جہاں چاہے ملاقات کیلئے تیار ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ ملاقات میں تمام معاملات سامنے رکھیں گے۔ طالبان کمیٹی کے جواب کا انتظار ہے۔ مذاکرات میں کھلے دل سے بیٹھیں گے۔ طالبان کمیٹی جو بات کرے گی حکومت اس کا مکمل طور پر جائزہ لے گی۔ حکومتی کمیٹی سے متعلق طالبان خدشات دور کرینگے۔ طالبان کی کمیٹی جہاں کہے گی ہم ملاقات کیلئے تیار ہیں ، ہمارے اختیارات سے متعلق اگر طالبان کمیٹی کو خدشات ہیں تو وہ دور کریں گے۔ مولانا سمیع الحق کی طرف سے حکومتی کمیٹی کے بارے میں ظاہر کردہ تحفظات کے حوالے سے عرفان صدیقی نے کہا کہ آج طالبان کی نامزد کمیٹی سے ملاقات متوقع ہے، طالبان کمیٹی جہاں کہے گی ہم ملاقات کیلئے تیار ہیں، حکومتی کمیٹی طالبان کمیٹی کے تمام خدشات سننے کے بعد اپنے خدشات سے بھی آگاہ کریگی۔ ملاقات میں جو بھی خدشات ہوں گے تمام باتیں سامنے آ جائیں گی۔ مذاکرات کو ناکام بنانے کیلئے بعض عناصر غلط فہمیاں  پیدا کرنے کیلئے سرگرم ہوچکے ہیں‘ میرے نام سے سوشل میڈیا پر جعلی کالم جاری کیا گیا  اس کی ایف آئی اے  تحقیقات کر رہی ہے۔ طالبان کی نامزد کر دہ کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کے  اختیارات سے متعلق جو تحفظات  ظاہر کئے ہیں وہ دور کئے جائیں اور اس کمیٹی کو اپنے خدشات اور تحفظات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق تعطل کے بعد دونوں کمیٹیوں میں رابطہ ہوا ہے اور اب مذاکراتی کمیٹیوں کا پہلا اجلاس آج  ہوگا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومتی کمیٹی کے ارکان  آج  ہی ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام سے ملاقات کریں گے جس میں مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی آرمی چیف کی سعودی عرب سے واپسی کے بعد ان سے بھی ملاقات کرے گی۔ واضح رہے دونوں کمیٹیوں کے درمیان ملاقات چار فروری کو ہونا تھی جو کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے وضاحتیں طلب کئے جانے کے بعد ملتوی کر دی گئی تھی، طالبان کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کے اس اقدام کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے اہم معاملے میں دلچسپی لینے کی اپیل کی تھی۔  کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ طالبان کی سہ رکنی کمیٹی سے بات چیت ہو سکتی ہے اور پیغام بھیج دیا ہے کہ ہم ان سے ملنے کو تیار ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے  سے بات کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے کہ آئندہ ایک سے دو روز میں حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کی ملاقات ہو جائے گی۔ وضاحت ہو گئی ہے، ممکن ہے کہ طالبان سے جو دیگر وضاحتیں طلب کر رہے ہیں وہ بھی دے دی جائیں گی۔ طالبان قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یو سف زئی نے کہا کہ  تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی خواہش ہے کہ ان کے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو ہمیں جلدی کرنی چاہئے تاکہ عوام کی مصیبتیں دور ہوں۔ مذاکرات میں کوئی تعطل پیدا ہوتا ہے تو وہ سب کے لئے نقصان دہ ہوگا، اگر پیش رفت نہیں ہو گی تو ظاہر ہے ایسی صورت میں مذاکرات لمبے عرصے تک نہیں چلیں گے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومتی مذاکراتی کمیٹی طالبان سے مطالبہ کرے گی کہ وہ مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے ساتھ کارروائیاں روک دیں؟ رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ یہ ہماری ترجیح ہو گی کہ طالبان اپنی کارروائیاں بند کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے ہم نے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی سے وضاحت طلب کی ہے کہ کیا وہ ہمیں اس طرح کی یقین دہانی دے سکتے ہیں۔ اگر طالبان نے اپنی کارروائیاں روک دیں اور حکومت کی جانب سے جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی تو پھر اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں طالبان کا موقف بھی سامنے آ جائے گا کہ کیا تحریک طالبان ان حملوں کی مذمت کرتی ہے کیا ان کو روکنے کی کوشش کرتی ہے یا کیا ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے؟ ہمارے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ طالبان کی نو رکنی نگران کمیٹی کس طرح کام کرے گی۔ این این آئی کے مطابق حکومتی اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان ملاقات کے طریقہ کار اور ابتدائی امور سے متعلق بیک ڈور چینل کے ذریعے معاملات طے ہوگئے ہیں، دونوں کمیٹیوں سے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ 48 سے 72 گھنٹے میں اسلام آباد میں اہم ملاقات ہوگی جس میں مذاکرات کے حوالے سے نکات کو حتمی شکل دی جائیگی۔ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ دونوں جانب سے ابتدائی رابطے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فریقین ملاقات کے بعد تحریری ضمانت دیں گے کہ مذاکراتی عمل کے آخری نتیجے تک ایک دوسرے پر حملے نہیں کئے جائیں گے، دونوں جانب سے کوئی بھی فریق ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں کریگا۔ ان نکات پر تحریری معاہدہ ہونے کے بعد یہ طے کیا جائے گا کہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے طالبان اپنی کمیٹی کے ذریعے شرائط یا پالیسی سے حکومتی کمیٹی کو آگاہ کریں گے اور حکومتی کمیٹی ان شرائط کے حوالے سے وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کو اعتماد میں لے کر اس حوالے سے حکومتی پالیسی سے طالبان کمیٹی کو آگاہ کریگی۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے ارکان رابطے میں ہیں۔ دونوں کمیٹیوں میں ایک دو روز میں ملاقات متوقع ہے۔اے ایف پی کے مطابق مولانا عبدالعزیز نے ملک میں تمام سیکولر عدالتیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مزیدخبریں