پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم ترین کردار تو ان لوگوں کا ہے جو اپنی حب الوطنی کی نعمت کو اپنے تمام کاموں میں بروئے کار لاتے ہیں اور ترقی کا حصہ بنے رہتے ہیں نیز ایک راستے کو متعین کرنے کے بعد ادھر ادھر کی گمراہ کن سوچوں سے اپنے آپ کو محفوظ بھی رکھتے ہیں۔ حب الوطنی کی نعمت سے بہرہ ور لوگ کسی لمحہ بھی اپنی سوچوں کی حفاظت سے بھی بے خبر نہیں ہوتے۔ وہ افراد قوم کو قوم کا مضبوط ترین حصہ بنانے میں مشغول رہتے ہیں اور یہی لوگ پاکستان کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ اگرچہ محب وطن لوگ ہوتے ہیں لیکن اس سرمایہ کی بڑھوتری کیلئے علم و شعور کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اور یہ علم و شعور قوموں میں امتیاز و برتری کا سبب ہوتا ہے اور علم و شعور کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اور یہ علم و شعور قوموں میں امتیاز کا سبب ہوتا ہے اور علم و شعور کا صحیح ترین مصدر اور مقصد ہی علم و شعور کی قدر و قیمت کا تعین کرتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں روز اول ہی سے علم کے مصادر اور مقاصد کا تعین نہیں کیا گیا۔ اسکی وجوہات بہت سی ہیں لیکن ایک اہم وجہ وہ پالیسی ساز ادارے ہیں جن کی کارکردگی محض وقتی اور مبنی برسطحیت تھی اور ہنوز اس روئیے میں تبدیلی نہیں آتی ہے۔ عمرانیاتی اور سائنسی نصابات کے تین مرتبین نہایت عملیت پسند اور حکومتی ارادوں کی تکمیل کے خواہش مند رہے ہیں۔ عمرانیاتی اور سائنسی نصابات کی تدوین نہ صرف روایتی رہی ہے بلکہ نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی اساسی مقصدیت سے روگردانی کرنیوالے لوگوں نے شعوری طور پر ان نصابات کا رخ بالکل الٹی طرف پھیر کر رکھ دیا۔ ہمارا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم علاقائی سیاسی وڈیروں کی بدنیتی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اپنے بچوں کو مغربی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے والوں نے اپنے علاقے میں جدید علوم کی معیاری تو کیا غیر معیاری درسگاہیں بھی قائم نہ ہونے دیں اور حکومتوں کا کردار یہ رہا ہے کہ اپنے اقتدار کے استحکام کیلئے نوازشات کی بھرمار میں سکولوں کا ایک کاغذی سلسلہ قائم کیا اور اگر عملی طو ر پر درسگاہیں تعمیر بھی کیں تو دیہات میں وہ سیاسی نمبرداروں کے ڈیروں میں تبدیل ہو گئیں۔ مختلف ادوار میں غیر ملکی امداد و تعاون سے اگر تعلیمی اداروں کا قیام بھی ہوا تو وہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ نظریہ پاکستان اور مقاصد ریاست کے حصول کیلئے تعلیم کا قبلہ کبھی بھی درست نہ ہو سکا۔ تعلیم کے بگڑے ہوئے حالات میں علم فروش عاقبت نا اندیش گروہوں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور پرائیویٹ اداروں کا ایک سیلاب بلاخیز وارد ہوا سرکاری تعلیمی ادارے پسپائی کی نذر ہو گئے۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی بھی ایک نازک مرحلے پر آگئی ہے۔ قومی و صوبائی نصابی پالیسیاں بھی یکسانیت کی افادیت سے محروم رہیں۔ تعلیمی نظام کی داخلی اور خارجی خرابیوں کے باعث ہمارے قومی تعلیم امتیاز اس درجہ بلند نہ ہو سکا۔ جس درجے سے ہمیں بین الاقوامی نظام تعلیم میں مناسب اور ضروری پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔داخلی یکسانیت نصاب میں بھی ہم مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ نیز نظام امتحانات کی یکسانیت میسر نہ آنے کے باعث معیاری قابل افراد کا وجود نہ ہونے کے برابر رہا۔مذہبی تعلیم کے سلسلے میں ریاست اور عوام کی سوچوں میں تفاوت کے سبب دینی مدارس کے نظام ایک علیحدہ تعلیمی حلقہ پیدا کر دیا۔ جسکے باعث بے سبب قصہ قدیم و جدید نے جنم لیا اور ہم اب فکری تنائو اور عملی کشمکش کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ اور افسر شاہی کے نزدیک تعلیم کا نظام ایک سیاسی آلہ انتخاب ہے یا پھر شاہانہ، حاکمانہ زندگی کے حصول کا ذریعہ ہے۔اسی نظام تعلیم کی پیداوار وہ اساتذہ ہیں جو ایک مستثنیٰ نظام کے وہ آلہ متحرک ہیں جو اپنی تنخواہوں کے سکیل کیمطابق فراہمی علم کا فریضہ سر انجام دیتا ہے اور ہمارے مقاصد تعلیم میں بنیادی ہدف معاش ہے اور معاش چونکہ ایک بنیادی ضرورت زندگی ہے اس لئے یہ سوچ تمام تعلیم پر غالب رہتی ہے لیکن اب گراوٹ کا یہ مرحلہ آگیا ہے کہ سیاسی ضروریات کو تمام امور پر مقدم رکھتے ہوئے اٹھارویں آئینی ترمیم میں تعلیم کو محض صوبائی مسئلہ قرار دیا گیا۔ اب ہر صوبہ اپنے تعلیمی امور کاخود ذمہ دار ہو گا۔ پاکستان کی اعلیٰ تعلیمی یونیورسٹیوں میں اب ایک صوبائی وزیر تعلیم کے باعث افسر شاہی کا نمائندہ وائس چانسلر کی پوری طرح سے نگرانی کریگا اور یونیورسٹی کے اعلیٰ ترین ادارے سنڈیکیٹ بھی ان نو پید اثرات کی زد میں ہو گا۔ نصابات کے سلسلے میں پہلے بھی تعلیمی بورڈ کچھ زیادہ اچھی کارکردگی سے محروم تھے اور نقل در نقل نصابات کو شکل جدید میں منتقل کرنا ان کا شعبدہ فن تھا اور تبدیلی نصاب کے نام پر غیر متعلقہ اور تعلیم دشمن نصابات کی تدوین ان کا وطیرہ تھا۔ مرکزی حکومت کے ادارہ ہائے نصابات میں بھی مخصوص منظور نظر افراد کو اس طرح سے مسلط کیا جاتا رہا جو اپنے خفیہ افکار کو قومیت پاکستانی کے نام پر متعارف کرواتے تھے۔ کبھی کچھ شور اٹھتا بھی تھا تو مذاکراتی کمیٹیوں کے ذریعے اس کو قصہ پارینہ بنا دیا جاتا تھا۔اب بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کی مرکزیت کو صوبوں میں تقسیم کر دینے کا مطلب واضح ہے کہ چار صوبوں اور پانچویں کشمیر میں نصاب سازی کے دماغ پانچ حصوں میں تقسیم ہونگے اور قومی مرکزیت کے تصور کو ایک درجہ کم کر دیا جائیگا ابھی مرکزی تعلیمی ادارے HEC کو بھی صوبوں کی سطح پر منتقل کر دیا گیا اور اب ہر صوبے کی یونیورسٹی بھی اسی صوبائی HEC کے تابع کر دی گئی ہے۔ہر صوبے کا انداز نرالا ہو گا اور پاکستان کی تعلیمی مرکزیت صوبوں کے مختلف افراد کی سوچ کی محتاج ہو جائیگی۔ یہ تجربہ نہایت ہی خطرناک ہے کیونکہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بہت سے متحرک دانش ور ایسے موجود ہیں جن کے افکار کے اثرات کو صوبائی حدود اور مخصوص ذہنیت تک گہری رسائی حاصل ہے اور یہ اثرات پاکستانیت کے مرکزی و سیاسی تصورات سے متصادم ہیں۔حکومت فوری طور پر تعلیمی معاملات میں کل پاکستان سطح پر تعلیمی یکسانیت کا اہتمام کرے اور پاکستان کی شناخت تعلیم میں اقبال کی اس نظریاتی حقیقت کو بنیاد بنائے۔
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
اسلام ترادیس ہے تو مصطفوی ہے
Feb 06, 2015