سجاد باقر ضوی نے امیر خسرو اور غالب کو برصغیر کی تقریباً سو سالہ مسلم تہذیب کا استعارہ قرار دیا ہے۔ اول الذکر عروج کا مؤخر الذکر زوال کا۔ میں ان دونوں کی آخری آرام گاہ دیکھ کر دل میں اداسی بھرے یہی سوچتی رہی ’’مر کہ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں۔‘‘ مزارِ غالب کی خستہ خالی کا پڑھ کر مجھ سے غالب کے خطوط اور" دستنبو" ڈائری کے بارے میں سوال پوچھے گئے۔ جوان نسل کا غالب کے سیاسی نقطہٗ نظر کے بارے میں سوال اٹھنا جائز ہے ۔ مسلم تہذیب یا مغل سلطنت کا عروج وزوال اور بساط دلی ہے اور غالب دلی ہے ۔ اسی لئے مولانا حالی نے غالب کی موت کو دلی کی موت کہا تھا۔ غالب کے خطوط نوحہ ہیں او ر اس زمانے کا عکس ہیں، جن میں غالب لوگوں کی اور اپنی حالت پر نوحہ کناں ہے۔ 1857ء جسے انگریز فوجی بغاوت کہتے تھے، اس وقت جو ہندوستانیوں نے گوروں کا اور اسکے بدلے جس طرح ہندوستانیوں کا خون بہایا گیا غالب اپنے خطوط میں کیسے تذکرہ کرتے ہیں؟
ایک نمونہ : "کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں اپنی تباہی کے غم میں مرتا ہوں۔ جو دکھ مجھ کو ہے اس کا بیان تو معلوم مگر میں اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں: انگریز کی قوم میں سے جو ان روسیا کالوں کے ہاتھوں سے قتل ہوئے اس میں کوئی میرا امید گاہ تھا ،کوئی میرا شفیق کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد۔ ہندوستانیوں میںکچھ عزیز دوست ، شاگرد، معشوق سو وہ سب کے سب خاک میں مل گئے۔ ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے۔ جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو اس کو زیست کیوں نہ دشوار ہو۔ ہائے اتنے یار مرے کہ جواب میں مروں گا تو میرا کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔" دستنبو کے بارے میں تفتہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
"اس تحریر کو جب دیکھو گے تب جانو گے۔ اہتمام اور عجلت اس کے چھپوانے میں اس واسطے ہے کہ اس میں سے ایک جلد گورنر جنرل بہادر کی نذر بھیجوں گا اور ایک جلد بذریعہ انکے جناب ملکہ انگلستان کی نذر کروں گا۔اب سمجھ لو کہ طرز ِ تحریر کیا ہوگیا اور صاحبان ِ مطبع کو اس کا انطباع کیوں نا مطبوع ہو گا؟" پھر غالب مجرو ع کو خوشخبری سناتے ہیں کہ چھپنے کی اجازت بخوشی مل گئی ہے۔ پروفیسر کبیر احمد جائسی کا غالب کی ڈائر ی پر تبصرہ نہ جانے کتنا جائز ہے مگر حاضر ِ خدمت ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ کیا غالب نے یہ روزنامچہ لکھ کے سرسید احمد خان یا کارل مارکس جیسی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا تھا یا صرف انکی ذاتی بقا کی جنگ تھی۔ جائسی لکھتے ہیں : "غالب نے یہ کتاب صرف اس لئے تصنیف کی ہے کہ باغیوں کی مذمت اور انگریز مقتولوں پر نوحہ خوانی کر کے وہ خود کو انگریزوں کے بہی خواہوں میں شمار کرا لیں تاکہ انکو مورثی جائیداد واپس مل سکے جس کو مدتوں پہلے وہ رو پیٹ چکے تھے اور حکام تک رسائی ہو جائے تاکہ بدلے ہوئے حالات میں بھی وہ ویسے ہی معزز رہیں جیسے مغلیہ عہد ِ حکومت میں تھے ۔مگر لوگوں کی نظروں میں بھی رہنے کیلئے دہلی کی بربادی کا بھی جگہ جگہ ذکر کیا ہے۔‘‘ انسان دلی میں گھوم رہا ہو اور چند چیزیں اسے آزاد کر دیں، یہ ناممکن ہے۔ غالب ہی نے دلی کی شادمانی کو یاد کرتے ہوئے لکھا تھا : بھائی کیا پوچھتے ہو کیا لکھوں دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر تھی۔ لال قلعہ ،چاندنی چوک ،ہر روز مجمع جامع مسجد کا، ہر ہفتے سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلہ پھولوں والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں پھر کہو دلی کہاں؟ہم نے سوچا دلی میں دوسری رات چاندنی چوک ، جامع مسجد کو دیکھ لیں ۔ دلی کی میٹرو کا سفر کیا۔ سوچا غالب ہوتا تو شاید پوچھتا جمنا کے پل کی سیر نہ کی اور میٹرو پر چڑھ بیٹھے ۔ دلی کی ہولناک فٹ پاتھ پر سوئی زندگی اور دوسری طرف ترقی یافتہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بھاگتی ہوئی میٹرو۔ میٹرو انسانوں سے بھری ہوئی تھی ۔جب کسی سٹاپ پر رکتی تو اترنے والوں کی تعداد کم ہوتی اور چڑھنے والوں کی تعداد دیکھ کر ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ۔ ہمارا سانس بند ہونا شروع ہوچکا تھا ۔ مگر جب ہم اپنے سٹاپ پر اترے تو ارد گرد بیٹھے کھڑے سب لوگ ہمارے دوست بن چکے تھے ۔پورے سفر کے درمیان ہم بھی ہنستے رہے اور وہ انجان شہر کے اجنبی لوگ بھی اپنوں کی طرح ہمارے ساتھ شریک رہے ۔ انکے چہروں پر مسکراہٹ چھوڑ کر ہم ان سے رخصت ہوئے ۔ جامع مسجد میں حاضری دی خوبصورت محرابیں اور صاف ستھری مسجد دیکھ کر دل کو یہ سکون ہوا کہ یہاں بسیرا کرنیوالوں کی غرض غربت نہیںعبادت ہے ۔ مسجد کے مینار دلی میں بارعب طریقے سے سر اٹھائے کھڑے تھے ۔ انہیں کوئی ڈر نہیں تھا کہ حکومت ہندئووں کی ہے یا مسلمانوں کی، انہیں اپنے اسرا ر اور اس طلسم پر اندھا یقین ہے ، جو ان کی وجہ سے دلی کی فضا میں پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے، ان چیزوں میں سے ایک جو دلی میں گھومتے ہوئے آپ کو اپنے سے آزاد نہیں ہونے دیتیں ۔وہیں مجھے فون آیا کہ میری پی آئی اے کی فلائٹ جو دلی سے لاہور جا رہی تھی سواریاں صرف تین یا چار ہونے کی وجہ سے کینسل ہو گئی ہے۔ میں مسجد کے صحن میں حیران پریشان کھڑی تھی۔ کیا دلی سے لاہور جانے والوں کی تعداد اتنی کم ہے؟ یا پی آئی اے کے سفر کا کوئی رسک لینے کو تیار نہیں؟ ان سوالوں کے جواب مسجد کی محرابوں یا میناروں کے پاس نہیں تھے ۔ پھر سوچا غالب ہوتا تو کیا کہتا ۔۔۔ الہامی شعر لکھتا؟ کسی سچے دوست کو سچا خط لکھتا یا ڈائری میں دنیا داری لکھتا؟ اس زمانے کی طرح آج بھی ہم الجھے ہوئے ہیں۔ بصیرت کو بصارت چاٹ رہی ہے۔ اور رہ جاتی ہے ہماری خالی جھولی۔ ہم کھانا کھانے کیلئے 1913ء سے قائم شدہ کریم ہوٹل جا پہنچے ۔کئی نسلوں سے چلتا ہوا یہ ہوٹل اب جس نسل کے ہاتھ میں تھا ہم نے اس نوجوان سے ملاقات کی ۔ وہاں اتنا رش تھا کہ بیٹھنے کیلئے ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ وقفہ انتظار میں ہم نے اس نوجوان سے ہوٹل کے بارے پوچھنے شروع کر دیا۔ ہمارے ہر سوال کے جواب میں خندہ پیشانی سے مسکرا مسکرا کر جواب دیتا رہا ایک سا تھی نے کہا آپکے کھانے ،خاص کر مٹن کڑاہی کی تعریف دور دور تک ہے اور ہمارا یہ اعزاز ہے کہ ہم آپ کے اصلی والے ریستوران میں کھانا کھا رہے ہیں ۔ اس نے مسکرا کر ہمیں دیکھا اور کہا : آپ کو بتائوں دنیا میں سب سے بہترین گوشت کڑاہی کہاں کی ہے ؟ہم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا اور جھٹ سے کہا آپ کے ریستوران کی ؟ اونچی سے ہنسا اور بولا: نہیں! لکشمی لاہور کی۔ میں نے ایسی عمدہ کڑاہی زندگی میں کبھی نہیں کھائی ۔ اور ہم سب نے یوں فخر سے سینہ تان لیا جیسے اس کڑاہی کی ترکیب ہم سے ہی پوچھ کے بنائی جاتی ہے۔۔۔ (پچھلے کالم میں آخری شعر کو غلطی سے غالب کا کہا وہ اسد بھوپالی کا شعر تھا۔ غلطی کی تصحیح کرنے پر ساجد حسن بٹ کی ممنون ہوں)