کشمیر اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر دنیا کا سب سے پرانا حل طلب مسئلہ ہے۔ اس پر پاکستان کا مؤقف بڑا واضح ہے اور یہ وہی مؤقف ہے جو قائداعظم محمد علی جناح نے تقسیم ہند کے وقت اختیار کیا تھا۔ یعنی آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ ہے مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ اسکا فیصلہ کشمیریوں نے اقوام متحدہ کی قراردادں کی روشنی میں ایک صوابدیدی ووٹ کے ذریعے کرنا ہے جس کی مکمل نگرانی اقوام متحدہ نے خود کرنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں آزاد کشمیر کا الگ تشخص ہے اور اسکی حیثیت کا فیصلہ کشمیری عوام خود کرینگے۔ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 370 بھی کشمیریوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرکے اس کو ایک خاص مقام دیتا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی انتخابی مہم میں ہی اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ ہم مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت ختم کرنے کیلئے آئین میں تبدیلی کرینگے‘ لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے 87 ارکان میں سے 44 اسکے حق میں ووٹ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے حالیہ انتخابات سے پہلے بار بار44 Mission کا ذکر کیا۔ یعنی ہم نے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں جائز و ناجائز طریقے سے 44 نشستیں جیتنی ہیں تاکہ وہاں سے قرارداد منظور کروا کر ہندوستانی پارلیمنٹ آئینی ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنا لیا جائے۔ اگرچہ نریندر مودی کشمیر کی اسمبلی میں اپنی 11 نشستوں کو بڑھا چڑھا کر 25 تک لے گئے‘ لیکن کشمیر کے غیور عوام نے مودی کا 44 نشستیں حاصل کرنے کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔ کشمیری بھائیوں کو چاہئے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل تک وہ ہر انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ نریندر مودی کا آئین میں تبدیلی کا مذموم خواب پورا نہ ہوسکے۔ قارئین! سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کشمیر کوئی Land dispute ہے نہ Scparatist Movement اور نہ ہی آزادی کی یہ تحریک دہشتگردی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ مسئلہ کشمیری عوام کی صوابدید کا ہے۔ یہ حق ان کو بین الاقوامی ادارے اقوام متحدہ نے دیا ہے جس پر عمل کرنے کے ہندوستان اور پاکستان سمیت دونوں ممالک پابند ہیں۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ کشمیری عوام کی صوابدید معلوم کرنے کے تصور سے بھی ہندوستانی قیادت کی ٹانگیں کیوں کانپنا شروع کردیتی ہیں۔ اس کا راز شیخ عبداللہ کے اس مشورے میں پنہاں ہے جو انہوں نے ہندوستان کے وزیراعظم نہرو کو ان الفاظ میں دیا تھا۔
’’میں آپ کو گمراہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں آپ کو کشمیر نہیں دلوا سکتا۔ اگر آج مردم شماری ہو جائے تو میں اپنی ساری مقبولیت کے باوجود کشمیر آپ کو نہیں دلوا سکتا۔‘‘
قارئین چند دن قبل کشمیر پر لکھی گئی عائشہ مسعود کی کتاب ’’کشمیر 2014ئ‘‘ کی رونمائی کیلئے مظفر آباد گیا۔ اس تقریب کی صدارت آزادکشمیر کے وزیراعظم جناب چودھری عبدالمجید نے فرمائی۔ وہاں میری ملاقات ایک دانشورخاتون ساجدہ بہار سے ہوئی جن کا آبائی علاقہ مقبوضہ کشمیر میں بارہ مولا کی بستی تھا۔ ساجدہ کہنے لگی کہ جب حال ہی میں وہ مقبوضہ کشمیر گئیں تو اس نے یہ محسوس کیا کہ وہاں کے لوگ آزادکشمیر کے بھائیوں سے جتنا پیار کرتے ہیں‘ اس سے بھی زیادہ ان کے دلوں میں پاکستان کیلئے محبت ہے۔ یہی خوف ہندو قائدین کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہے۔
قارئین! اکیسویں صدی کے پندرہویں سال میں ہمیں بدلتے ہوئے ہمارے اندرونی جنوب ایشیا کے خطے کے اور بین الاقوامی حالات پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کی معیشت کا تقریباً100 ارب ڈالرز ڈبو دیا جو ایک بہت بڑا مالی دھکا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے دہشت گردی عروج پر آگئی اور بیرونی سرمایہ کاری تو دور کی بات ہے‘ ملک کے اندر بھی صنعتکاری کا عمل تھم گیا۔ پچھلے 12 سالوں سے دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہماری فوج کے تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار افراد مشرقی سرحد سے مغربی سرحد کے ساتھ مورچہ بند ہیں۔ 60 ہزار لوگوں کی شہادتوں کے بعد عوامی نفسیات‘ بلند حوصلوں کے باوجود ایک خاص دبائو کا شکار ہے۔ تاریخ کے بدترین توانائی کے بحران کا بھی پاکستان کو سامنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ساری پاکستانی قوم اور خصوصاً افواج پاکستان کی زبردست کامیابیوں کے بعد بھی پاکستان دشمن عناصر کا ملک کے خلاف پراپیگنڈا اب بھی جاری ہے۔ اتحادیوں کی طرف سے پاکستانی قوم کی قربانیوں کی بے قدری کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ امریکی صدر دو دفعہ ہندوستان آکر بھی پاکستان نہ آسکے۔ دوسری چین کی ناقابل یقین عسکری اور معاشی ترقی کی بدولت مغرب اور امریکہ پریشانی کے عالم میں ہندوستان کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے خوش رکھنا چاہتے ہیں اس لئے کشمیر کا نام نہیں لیتے۔ مغرب میں معاشی کسادبازاری کی بدولت ہندوستان کے سروس سیکٹر نے بہت ترقی کی ہے۔ اب چین کو رکاوٹیں ڈالنے کیلئے امریکہ نے ہندوستان میں اسلحے کے انبار لگا دیئے ہیں۔ چالاک اور مکار ہندو لیڈرشپ امریکہ سے فوائد لیکر بھی روس اور چین کو ناراض نہیں کرنا چاہتی اس لئے ان کی وزیرخارجہ نے امریکی صدر اوباما کے دورے کے بعد فوراً چینی اور روسی وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے الزامات لگائے۔ اس ساری گھمبیر صورتحال کے باوجود اللہ کا شکر ہے کہ آج تک کسی نے بھی ہندوستان کی یہ بات نہیں مانی کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں مشرقی انڈونیشیا‘ ایسٹ تیمور‘ سوڈان میں جنوبی سوڈان اور یوکراین میں کریمیا کو حق خودارادیت ملا۔ اس سے کشمیر کاز کو تقویت پہنچی۔ اگرچہ بدقسمتی سے ہماری پچھلی حکومتوں نے اس سے کوئی سفارتی سطح پر فائدہ نہیں اٹھایا۔ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے پاکستان سے بہتر تعلقات کی ابتدا نے ہندوستان کو پریشان کیا ہوا ہے۔ ہمسایوں سے بہتر تعلقات کی ہماری خارجہ پالیسی اور ہمارے آپریشن ضرب عضب میں افواج پاکستان کی بے پناہ کامیابیوں کے بعد اب امریکہ اور مغرب کا رویہ پاکستان سے قدرے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا ثبوت جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورۂ امریکہ اور برطانیہ میں ان کی غیرمعمولی پذیرائی ہے۔ اسی کی دہائی میں مرحوم قاضی حسین احمد نے 5 فروری کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی منانے کا تصور پیش کیا تھا جس سے اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اتفاق کیا۔ اس یوم یکجہتی پر ہم پھر ساری دنیا کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ تھا نہ اب ہے اور نہ اللہ کے فضل سے آئندہ ہوگا۔ کشمیری اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں گے۔ چونکہ یہ فیصلہ 100 فیصدی پاکستان کے ساتھ الحاق کا ہونا ہے اس لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر ہے اور ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اب مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں مزید نشستیں جیت کر ہندوستانی آئین میں ترمیم کا سوچ رہا ہے تاکہ ایک تو کشمیر ہندوستان کی ریاست بن جائے اور دوسرا آرٹیکل 370 جو ہندوئوں کی کشمیر میں جائیدادیں خریدنے پر پابندی ہے اس کو ختم کرکے ہندوستان سے ہندوئوں کی کشمیر کی طرف نقل مکانی کرا کر آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کے خلاف کر لیا جائے۔
اکیسویں صدی کا بدلتا پس منظر اور کشمیر
Feb 06, 2015