خواب میں پیارے نبی کی زیارت

نظام!ہم کو تمہارا بڑا اشتیاق ہے
اے کہ تیرہ چہرہ مبادک دنیا کے دیدار کی چیز ہے تو کس کے دیدار کو چلا؟
جنازے پر قوال شیخ سعدی کی غزل گاتے اور مخلوق خدا دھاروں دھار روتی
خواجہ حسن ثانی نظامی دہلوی
حضرت نے اپنے وصال سے چالیس روز پہلے سے کھانا چھوڑ دیا تھا اور رونے کی یہ حالت تھی کہ ذرا سی دیر کو بھی آنسو نہ تھمتے تھے کمزوری بڑھتی رہی ایک بزرگ نے عرض کیا، حضرت اگر آپ کھانا نوش نہیں فرمائیں گے تو طاقت کیسے قائم رہے گی؟ جواب دیا کہ جو شخص جناب سرور کائنات کا مشتاق ہو اس کو دنیا کا کھانا کیسے بھائے۔ حضرت شیخ رکن الدین سہروردی اپنے وقت کے زبردست بزرگ تھے وہ مزاج پرسی کو تشریف لائے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ جب تک چاہیں دنیا میں رہیں آپ بھی اللہ کے محبوب ہیں۔ آپ سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچ رہا ہے آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کچھ دن اور دنیا میں رکھے! حضرت یہ سن کر آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت رسالت مآب فرماتے ہیں کہ نظام ہم کو تمہارا بڑا اشتیاق ہے، پس جس کا رسول اللہ انتظار فرمائیں وہ کیسے دنیا میں رہ سکتا ہے۔
 حضرت پر غشی طاری ہو جاتی تھی ہوشیار ہوتے تھے تو دریافت فرماتے تھے کوئی مہمان آیا؟ میں نے نماز پڑھ لی؟ لوگ کہتے تھے کہ سرکار نے ابھی نماز پڑھی ہے مگر حضرت دوبارہ نماز پڑھتے ہیںاس طرح ایک ایک نماز کو کئی کئی دفعہ ادا فرماتے اور کہتے
میردیم ومیر دیم ومیر دیم
(ہم جاتے ہیں ہم جاتے ہیں ہم جاتے ہیں)
اسی حال میں تمام خدمت گاروں، مریدوں اور عزیزوں کو بلا کر فرمایا کہ تم گواہ رہنا، اقبال خادم کوئی چیز جماعت خانے میں بچا کر نہ رکھے سب کچھ خیرات کر دیا جائے ورنہ قیامت کے دن حساب دینا ہوگا عرض کیا گیا کہ خواجہ اقبال نے حکم کی تعمیل کی ہے اور سب کچھ تقسیم کر دیا ہے صرف درویشوں کے لئے چند دن کے لائق غلہ باقی رکھا ہے حضرت اس پر ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ زمین کی اس ریت کو کیوں باقی رکھا ہے گوداموں کے دروازے کھول دو اور غریبوں سے کہو کہ ان کو لوٹ لیں اور کچھ باقی نہ چھوڑیں۔
18 ربیع الثانی 725ھ کو سورج نکلنے کے بعد یہ آفتاب طریقت غروب ہو گیا حضرت کی وصیت کے موافق تدفین عمل میں آئی جہاں آج کل حضرت کا روضہ ہے یہاں کسی زمانے میں جنگل ہی تھا حضرت شیخ رکن الدین سہروردی نے نماز جنازہ پڑھائی کہتے ہیں حضرت نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ جنازے کے سامنے حضرت شیخ سعدی کی وہ غزل گائی جائے جس کا ایک شعر یہ ہے
اے تماشا گاہے عالم روئے تو
تو کجا بہر تما شامی روی
(اے کہ تیرا چہرہ (مبارک) دنیا کے دیدار کی چیز ہے تو کس کے دیدار کو چلا؟)
قوال یہ شعر گاتے جاتے تھے اور بے شمار مخلوق دھاروں دھار روتی تھی۔

خلافت نامہ کی تصدیق
موتی قدردان کو سونپا گیا
نامہ مل گیا تو اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی ہوا کہ دہلی جاتے ہوئے ہانسی میں خلافت نامہ مولانا جمال الدین کو دکھا لینا۔ چنانچہ حضرت ہانسی میں راقم الحروف کے جد امجد حضرت جمال الدین ہانسوی کی خدمت میں گئے اور انہوں نے ان تاریخی الفاظ کے ساتھ اس کی تصدیق فرمائی۔
خدائے جہاں راہزراں سپاس
کہ گوہر سپر دہ  بہ گوہر شناس
(خدا کا ہزاروں ہزار شکر کہ موتی اس کو سونپا گیا جو موتی کی قدر جانتا ہے)
سوکھی لکڑیاں
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءنے پیر و مرشد سے اتنی جلدی تعلیم و تربیت حاصل کی اور اتنی جلدی اعلیٰ مرتبوں پر پہنچے کہ بعض ساتھیوں کو رشک آنے لگا اور ان میں سے کسی نے بابا صاحب سے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم لوگ اتنے دن سے آپ کی خدمت میں ہیں مگر ہم پر آپ کی وہ نظر عنایت نہیں ہوئی جو مولانا نظام الدین ہمارے بہت بعد آئے اور ترقی کرنے میں ہم سے آگے نکل گئے۔ بابا صاحب نے یہ بات سنی تو اس کا بڑا دلچسپ اور البیلا جواب دیا انہوں نے فرمایا کہ میاں نظام الدین سوکھی لکڑیاں لائے تھے میں نے چنگاری رکھ کر پھونک ماری اور شعلہ بھڑک اٹھا تم لوگوں کی لکڑیاں گیلی ہیں آگ پکڑتی ہی نہیں! میں کیا کروں؟ یعنی مولانا نظام الدین میں قدرتی صلاحیت اور اہلیت ہے اس لئے انہوں نے میرا فیض جلدی حاصل کر لیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...