دہلی میں خشک سالی ہے اور عرصہ سے بارش نہیں ہوئی، مخلوق خدا پریشان حال پھرتی ہے اور دعائیں مانگتی ہے لیکن باران رحمت کا نزول نہیں ہوتا ایسے میں حضرت محبوب الٰہی کے عقیدتمند ایک دوسرے سے عرض کرتے ہیں کہ کیوں ناں حضرت کی بارگاہ میں دعا کے لئے حاضر ہوں، چنانچہ مخلوق خدا کی بڑی تعدادغیاث پور میں آپ کی چوکھٹ پر حاضر ہو کر حرف مدعا زبان پر لاتی ہے، لوگوں کا سوال سنا اور آپ مسجد میں منبرمبارک پر تشریف فرما ہوئے، لوگوں نے دیکھا کہ حضرت کے دست مبارک میں ان کی والدہ محترمہ کی قمیض کا پرانا کپڑا ہے، حضرت محبوب الٰہی کے دونوں ہاتھ بارگاہ ایزدی میں بلند ہیں اور آپ حق تعالیٰ سے بھی دعا فرما رہے ہیں کہ اے باری تعالیٰ یہ قمیض کا کپڑا اس ضعیفہ کا ہے جس پر کبھی کسی نامحرم کی نگاہ نہیں پڑی تجھے اس کپڑے کی حرمت کا واسطہ تو باران رحمت نازل فرما حضرت محبوب الٰہی کی دعا ختم ہوئی اور اہالیان دہلی نے دیکھا کہ یکلخت آسمان پر کالی گھٹا چھا گئی۔ بادل امنڈ آئے اور شہر بارش سے جھل تھل ہو گیا مخلوق خدا کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے، لوگو! آخر یہ قمیض کا ٹکڑا کس خاتون محترم کا ہے؟ یہ وہی قابل فخر ماں ہیں جو ننھے یتیم لخت جگر نظام کو کلیجہ پر پتھر کی سل رکھ کر فاقے کے ساتھ مکتب بھیجتی اور ساتھ یہ بھی فرماتیں کہ بیٹا آج ہم اللہ کے مہمان ہیں اور ننھے نظام کا معصوم دل پھر سے ماں کے منہ سے یہی جملہ سننے کا مشتاق رہتا کیونکہ اللہ کے مہمان ہونے کا سن کر انہیں جو لطف و سکون ملتا وہ اسے بیان کرنے سے قاصر تھے۔ اور ایک مرتبہ پورے تین دن بھی فاقہ کیا اس غیور خاندان کی فی ہفتہ آمدن تین جیتل تھی اور اس دور میں ایک جیتل میں بمشکل چند روٹیاں ہی آتی تھیں۔ یہ عابدہ زاہدہ ماں سید زلیخا ہیں جن کا تعلق بہت مالدار گھرانے سے تھا لیکن ان کی خاندانی غیرت نے کبھی بھی دولت مند بھائیوں سے دینے کے باوجود مدد لینا گوارا نہ کی فاقہ کشی میں سوت کاٹ کر اپنے بچوں کی پرورش کی اور اپنے اکلوتے صاجزادے کو اعلیٰ زیور تعلیم سے بھی آراستہ کیا آفرین، صد آفرین اس ماں پر جس نے بدایوں میں اپنی تمام جائیداد فروخت کر کے بیٹے کو اعلیٰ ترین تعلیم دلائی سوت کاٹ کر کپڑا تیار کر کے دستار بنائی اور دستار بندی کی بڑی تقریب میں شہر کے جید علماءکرام تشریف لاتے ہیں۔ روایات کے مطابق آپ کے استاد محترم مولانا علاﺅالدین اصولی، حضرت خواجہ علی (مرید خاض حضرت شیخ جلال الدین تبریزی) نے آپ کے سر مبارک پر دستار فضیلت باندھی اور آپ کے حق میں دعائے خیر فرمائی کہ یا اللہ! نظام الدین کو علماءکرام کی صف میں شامل فرما اور اپنے فضل و کرم سے بلند مرتبہ پر فائز فرما! اور یہ والدہ محترمہ کی تربیت اور انہی بزرگان کی دعاﺅں کا صدقہ تھا کہ آپ کی علمی قابلیت، دانشمندی اور دانشوری زبان زد و عام ہو گئی اور آپ ہر مشکل سے مشکل مسئلہ اور سوال برجستہ دلائل کے ساتھ دینے پر قادر ہو گئے اور علمی و ادبی حلقوں میں مولانا نظام الدین بحاث شکن، محفل شکن کے خطاب سے مشہور ہو گئے والدہ کے وصال کے پچاس سال بعد ستر برس کی عمر میں بھی والدہ محترمہ کا ذکر کرتے ہوئے آنسوﺅں اور ہچکیوں میں الفاظ کا سمجھنا دشوار ہو جاتا۔ انہیں جب تک چلنے کی سکت رہی وہ قطب مینار کے نزدیک والدہ محترمہ کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے تشریف لیجاتے رہے، یوں حضرت محبوب الٰہی نے اسلامی تہذیب میں خواتین کے احترام کی ایک روشن مثال قائم کی۔