اُستاد شاعر غلام مصطفی مصحفیؔ نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ ؎
’’گرمِ سفر رہے پر ٗ منزِل کو ہم نہ پہنچے
آوارگی نے ہم کو ریگِ رَواں بنایا‘‘
’’ریگِ رواں‘‘ چمکتی ہُوئی ریت کو کہتے ہیں جو پانی کی طرح بہتی ہُوئی نظر آتی ہے۔
’’جناب سراج اُلحق ریگستانی جہاز پر!‘‘
خبر ہے کہ ’’امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج اُلحق جب ’’ریگستانی جہاز‘‘ (اُونٹ) پر سوار ہو کر چُولستان (خیرپُور ٹامے والی) میں جلسۂ عام سے خطاب کرنے کے لئے پُہنچے تو چُولِستانی اُونٹوں نے اُنہیں سلامی دی۔‘‘ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ’’چُولستانی اُونٹوں نے امیر جماعتِ اسلامی کو صِرف سلامی دی یا اپنے رقص سے محظوظ بھی کِیا؟ مَیں نے 55/50 سال پہلے سرگودھا میں میلہ منڈی مویشِیاں میں کئی بار دیکھا کہ جب اُونٹ اور گھوڑے میلے کے مہمانِ خصوصی کو سلامی دیتے تھے تو وہ رقص بھی کرتے تھے۔ مَیںجب بھی اُونٹوں اور گھوڑوں کا رقص دیکھتا ہوں تو مجھے کسی شاعر کا یہ مِصرع یاد آ جاتا ہے کہ ؎
’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘
لیکن حقیقت یہی ہے کہ مَیں نے کسی اُونٹنی اور گھوڑی کو اپنے ’چنّ ماہی اور ڈھول سپاہی‘‘ اُونٹ یا گھوڑے کے ساتھ ۔’’ہم رقص‘‘ نہیں دیکھا۔ علّامہ اقبال نے اپنی ایک ظرِیفانہ نظم میں گائے اور اُونٹ کا مکالمہ بیان کرتے ہُوئے کہا تھا ؎
’’مَیں تو بدنام ہُوئی توڑ کے رسّی اپنی
سُنتی ہُوں آپ نے بھی توڑ کے رکھ دی ہے مُہار‘‘
O
’’جب یہ تقریر سُنی اُونٹ نے شرما کے کہا
ہے ترے چاہنے والوں میں ہمارا بھی شُمار‘‘
مَیں نے نامور شاعر ٗ ادِیب اور کالم نوِیس جناب ابنِ انشاء کے حوالے سے لِکھا تھا کہ ’’اُونٹ ایک اسلامی جانور ہے‘‘ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ’’ہمسایہ مُلک میں ہِندُو قوم گائے کو ’’ماتا‘‘ (ماں) کا درجہ دیتی ہے۔ علّامہ اقبال کے دَور میں گائے کی تقریر سُن کر اُونٹ کا شرمانا اور خُود کو گائے کے چاہنے والوں میں شُمار کرنا کسی کام نہیں آیا۔ 1947 ء میں گائے اور اُونٹ والوں میں دُورِیاں ہو گئیں۔ پنجابی کے نامور شاعر اُستاد دامن ؔ نے جب نئی دہلی میںآنجہانی وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہرُو کی صدارت میں مُنعقدہ مشاعرہ میں کہا تھا کہ ؎
’’لالی اکھّیاں دی پئی دسّدی اے
روئے تُسِیں وِی ہو روئے اسِیں وی ہاں‘‘
لیکن اُس وقت تک ’’امن کی آشاکا چراغ روشن نہیں ہُوا تھا۔‘‘ امیر جماعت ِ اسلامی مُنتخب ہونے کے بعد جناب سراج اُلحق اسلام کے نفاذ کے لئے عوام سے اُٹھ کھڑے ہونے کی تلقِین کرنے کے ساتھ ساتھ مزدُوروں اور کسانوں کے مسائل کے لئے خُود بھی اُٹھ کھڑے ہُوئے ہیں۔ اِن کے سِوا کوئی بھی مذہبی یا سیاسی لِیڈر اِس ’’Field‘‘ میں کام نہیں کر رہا۔ خیر پور ٹامے والی میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوئے جناب سراج الحق نے کہا کہ ’’اگر کسانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو مَیں ہزاروں کسانوں کی قیادت کرتے ہُوئے اسلام آباد تک مارچ کرُوں گا اور حکمرانوں کے گریبان پھاڑ دُوں گا۔‘‘
جناب سراج الحق عام طور پر ’’ملِین مارچ‘‘ (یعنی 10 لاکھ لوگوں کے مارچ) کی قیادت کرتے ہیں لیکن اُن کا خیال ہے کہ کسانوں کے مطالبات تسلیم نہ کرنے والے حکمرانوں کے گریبان پھاڑنے کے لئے اسلام آباد پہنچنے کے لئے صِرف ’’ہزاروں کسانوں‘‘ کو ہی لے جانا کافی ہوگا۔ جناب سراج الحق نے یہ نہیں بتایا کہ۔’’کیا اسلام آباد کے حکمران اُن کی خواہش پُوری کرنے کے لئے ’’Zero Point‘‘ پر ’’قطار اندر قطار‘‘ کھڑے ہو جائیں گے اور خُود ہی عرض کریں گے کہ ’’اے مہمان عزیز! آئیے اور باری باری ہمارے گریبان پھاڑیئے!‘‘ کیا ہی ہوتا کہ جناب سراج الحق کسانوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے لئے حکمرانوں کو کوئی ’’Deadline‘‘ بھی دے دیتے؟
وزیرِ داخلہ کی ’’لائف لائن؟‘‘
وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی دہشت گردی ختم کرنے کے لئے کوئی ’’ڈیڈلائن‘‘ نہیں دی۔ فرمایا کہ ’’دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہفتے، مہینے اور سال لگ سکتے ہیں۔‘‘ وفاق اور صُوبے مِل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں!‘‘ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ اگر وفاق اور صوبے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے مُتحِد نہ ہُوئے تو سالہا سال تک نہتے عوام کی جان سُولی پر لٹکی رہے گی۔ ’’کالا باغ ڈیم‘‘ بنانے کے لئے بھی وفاق اور صُوبوں کے مُتحِد ہونے کی شرط رکھی گئی تھی۔ لیکن نہ ’’9 من تیل ہُوا ٗ نہ رادھا ناچی‘‘۔ اب یہی طریقہ ہے کہ جب تک سُورج چاند رہے ٗ بحیثیت وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کی ’’لائف لائن‘‘ بڑھا دی جائے اور دہشت زدہ عوام چودھری صاحب سے مخاطب ہو کر کے کہیں کہ ؎
’’تُم سلامت رہو ہزار برس!
ہر برس کے ہوں دِن پچاس ہزار‘‘
عمران خان غزنویؔ نہیں غوریؔ بنیں!
جناب عمران خان نے کہا ہے کہ ’’دھرنا حکومت پر ہمارا پہلا وار تھا۔ سومنا ت کا مندر فتح ہونے تک ہم بھی محمود غزنوی کی طرح حملے جاری رکھیں گے۔‘‘ خان صاحب نے خُود کو فاتح سومنات محمود غزنوی کا پَیرو کار ظاہر کِیا ہے لیکن اُنہیں اُن کے ’’Speech- Writer‘‘ نے یہ نہیں بتایا اور نہ ہی اُن کے کسی مِیڈیا ایکسپرٹ نے کہ ’’محمود غزنویؔ نے ہِندُوستان (لاہور) پر پہلا حملہ 1009ء میں کِیا تھا۔ اِس حملے میں محمود غزنوی ناکام نہیں ہُوا تھا۔ وہ لاہور کے راجا آنند پال کو شکست دے کر اور بہت سا مالِ غنیمت لے کر غزنی واپس چلا گیا تھا۔
محمود غزنوی نے بھارت کے صُوبہ گُجرات کے سومنات (سومناتھ) مندر پر 17واں حملہ 1025ء میں کِیا (یعنی پہلے حملے کے 16 سال بعد)۔ اُس وقت محمود غزنوی کا چہِیتا غُلام ’’ملک ایّاز‘‘ اُس کے ساتھ تھا لیکن دورِ حاضر کے ’’ایّاز‘‘ سپیکر قومی اسمبلی ایّازؔ صادق وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ کیا عمران خان اسلام آباد پر 2014ء میں اپنے پہلے وار کے بعد کے 16 سال بعد 2030ء میں 17واں حملہ کر کے اور اسلام آباد میں سومنات (اقتدار کا مندر) توڑ کر ’’نیا پاکستان‘‘ بنائیں گے؟ 16 سال تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ 16 سال بعد تو خان صاحب 78 برس کے ہو جائیں گے۔ اِس عُمر میں تو موصُوف میری طرح کسی اخبار میں کالم ہی لِکھ سکیں گے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ جناب عمران خان محمود غزنوی کے بجائے غزنی ہی کے شہاب الدّین غوریؔ کو اپنا ’’Ideal‘‘ بنائیں۔ غوری نے1191ء میں دِلّی اور اجمیر کے ہِندُو راجا پرتھوی راج چوہان سے شکست کھائی اور 2 سال بعد 1193ء میں اپنی شکست کا بدلہ لے لِیا۔ پرتھوی راج چوہان کے قتل کے بعد غوری ؔ اپنے ایک غُلام قُطب الدّین ایبکؔ کو دِلّی کا حکمران بنا کر غزنی لَوٹ گیا تھا۔ شہاب اُلدّ ِین غوری ایک ’’باعِزّت مسلما ن بادشاہ‘‘ تھا۔ 1971ء میں بھارت نے پاکستان کو دو لَخت کرا دِیا لیکن ہمیں شہاب اُلدّ ِین غوری کا سا کوئی فوجی/ جمہوری حکمران نصیب نہیں ہُوا۔ میریِ عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ محمود غزنویؔ کے بجائے شہاب الدِین غوریؔ بنیں! اور نومبر 2016 ء تک پاکستان کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنا دیں۔