لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) اگرچہ اپنے جرائم کے حوالے سے دونوں کے اعترافی بیانات میں کافی مماثلت ہے تاہم صولت مرزا کے برعکس عزیر جان بلوچ کے خلاف مقدمات کا منطقی نتیجہ مختلف ہو سکتا ہے، انتہائی ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے عزیر جان بلوچ نے تفتیشی اور حساس اداروں کو اپنے ساتھ جرائم میں شریک اور سرپرستی کرنے والی اہم سیاسی شخصیات کے متعلق دستاویزی ثبوت بھی فراہم کئے ہیں جبکہ صولت مرزا نے اعترافی بیانات میں ایم کیو ایم کی اہم شخصیات کو اپنے ساتھ شریک جرم قرار دیتے ہوئے واقعاتی شہادت کا سہارا لیا تھا اسی لئے اعترافی بیان کی کسی آزاد اور ٹھوس شہادت کے ذریعے تصدیق نہ ہونے کے باعث قانونی تقاضوں کے عین مطابق صولت مرزا وعدہ معاف گواہ نہ بن سکا اور اس کی سزا پر عملدرآمد ہو گیا، قانونی طور پر عزیر جان بلوچ نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کو اعترافی بیان میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ شریک ملزمان کی نشاندہی کر دی تو تفتیشی ادارہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن157کے تحت متعلقہ شخص کو شامل تفتیش کر سکتا ہے اگر تفتیش میں جرم ثابت ہوا تو سی آر پی سی کے سیکشن154کے تحت تفتیشی ادارہ شامل تفتیش شخص کو بطور ملزم مقدمے میں شامل کر دے گا۔ عزیر جان بلوچ نے تفتیشی اداروں کے روبرو دیئے گئے بیان کی مجسٹریٹ کے روبرو تصدیق کر دی تو پھر وہ بیان سیکشن164کے زمرے میں آئے گا جس کے بعد سیکشن142کے تحت کسی تائیدی شہادت کی ضرورت نہیں رہے گی، قانونی طور پر تفتیشی اداروں، میڈیا اور پولیس کے سامنے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت اسی وقت ہو گی جب ملزم سیکشن 164کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے بھی اس کا اعتراف کرے ورنہ یہ کہہ دینا ہی کافی ہے اس سے دبائو ڈال کر بیان لیا گیا، قانونی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے حکومت سندھ کی طرف سے پراسیکیوشن سے متعلق بل عزیر جان بلوچ کی طرف سے اہم سیاسی شخصیات کے خلاف ممکنہ اعترافی بیانات کے پیش نظر منظور کروایا گیا جس کے تحت پراسیکیوشن کو کسی بھی ملزم کے خلاف مقدمہ واپس لینے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے جو منظور کردہ ترمیمی قانون کو اعلی عدالتوں کی طرف سے کالعدم قرار دینے تک حاصل رہے گا۔ صولت مرزا کے برعکس عزیر جان بلوچ کے جرائم سے متعلق اعترافی بیانات کا تعلق کراچی کی موجودہ صورت حال اور دہشتگردی کی اہم وارداتوں سے ہو سکتا ہے۔