امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی رنگین مزاجی اور امریکی مفادات میں کئے فیصلوں کے حوالے سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں کب تک زیر بحث رہتے ہیں.... امریکی عوام کیلئے واقعی وہ ایک باصلاحیت اور مقبول صدر ثابت ہونگے۔ ممکنہ سخت عالمی پالیسیوں کے تناظر میں امریکی مالیاتی بحران اور کمزور معیشت پر آئندہ 4 برس میں وہ قابو پا سکیں گے.... علاقائی اور عالمی امن ان کے کردار کو کہاں تک سراہا جائے گا....؟ ایسے بنیادی سوالات ہیں جن کا فی الحال جواب دینا اس لئے بھی قبل از وقت ہو گا کہ امریکی سیاست کو سمجھنا اور اس پر رائے قائم کرنا اتنا آسان نہیں جتنا دنیا میں بالعموم تصور کیا جاتا ہے
ٹرمپ ریاستی ذمہ داریاں سنبھالنے میں کامیاب تو ہو گئے ہیں مگر ان ذمہ داریوں کو نبھانے کا مرحلہ ان پر شاید اس لئے بھی بھاری ہو کہ حلف وفاداری تقریب کے فوراً بعد ان کے خلاف ہونے والے مظاہرے اس بات کا مظہر ہیں کہ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے باوجود امریکیوں کی ایک بڑی تعداد ان کی شخصیت اور فکر و نظر سے متفق نہیں؟
ٹرمپ کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ پیدائشی طور پر سیاستدان نہیں تو بے جا نہ ہو گا.... حسن و عشق ان کی سب سے بڑی کمزوری.... اور کاروبار پر دسترس ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ لگتے سیدھے ہیں.... مگر عیسائیت کا پرچار کرنے کے باوجود دیگر مذاہب پر گہری نظر رکھتے ہیں....؟ اپنی پہلی تقریب پر ہی اسلامی انتہاءپسندی کے خاتمہ کو موضوع بنا کر دنیا کو بتانے کی یہ کوشش کی ہے کہ ”اسلام میں انتہاءپسندی موجود ہے“ جس سے امریکہ کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ مقدس بائبل کے ایک باب سے تقریب کے آغاز کے بعد اسی گرجا گھر میں ”سورہ فاتحہ بھی تلاوت کی گئی جسے انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے بڑے غور سے بنا، حسن اتفاق یہ کام بھی ان کے ایک پاکستانی نژاد امریکن سپورٹر ساجد تارڑ کے زیرنگرانی انجام پایا مگر اگلے ہی روز امریکی صدر نے دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کا تعلق اسلامی دہشت گردی سے جوڑ کر اپنے فطری اتحادی ممالک کو یہ پیغام دے دیا کہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے اسرائیل و بھارت سے جو مبینہ وعدہ کئے تھے انہیں ضرور پورا کریں گے؟
ٹرمپ کی بین المذاہب تصادم پے مبنی پالیسیاں مستقبل میں کیا رنگ لاتی ہیں اس بارے میں امریکہ کے انٹیکچول حلقے، میڈیا میں اور مذہبی اور انسانی حقوق کی بیشتر تنظیموں میں سخت تحفظات پائے جا رہے ہیں
امریکی صدر کا اپنی حلف وفاداری کی تقریب پر امریکی میڈیا کو ہدف تنقید بنانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حقائق اور سچائی پر ذرائع ابلاغ نہیں بلکہ صدارتی اختیارات کے ذریعے ٹرمپ خود Dictate کروانا چاہتے ہیں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افتتاحی تقریب میں دنیا بھر سے 10 لاکھ کے قریب لوگوں نے شرکت کی جبکہ امریکی میڈیا نے اڑھائی لاکھ افراد کی تعداد بتائی اس پر ٹرمپ نے شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے امریکی نامہ نگاروں کی ”لا پا“ کے رکھ دی؟ جس سے امریکی میڈیا کی دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ روس سے ٹرمپ کے بہترین تعلقات کے یوں تو کئی پہلو ہیں مگر ایک بڑا پہلو امریکی صدر کا 2013ءمیں روس کا وہ دور ہے جہاں ٹرمپ نے بھرپور انجوائے کیا۔
انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ٹرمپ نے جب یہ دورہ کیا تو روسی خفیہ سروس نے ان کے ہوٹل میں مبینہ طور پر جسم فروش عورتوں کے ساتھ ایسی غیر اخلاقی ویڈیوز بھی بنائیں جو امریکی صدر کو بلیک میلنگ کرنے کیلئے کبھی بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ تاہم روسی صدر پیوٹن امریکی صدر ٹرمپ کو ایک رنگین مزاج اور باصلاحیت انسان تصور کرتے ہیں
دوسری جانب امریکہ کے یورپ سے 70 سالہ پرانے تعلقات میں کسی بھی وقت دراڑیں پڑ جانے کی پیشنگوئیاں بھی کی جا رہی ہیں جبکہ ٹرمپ نے جاپان سمیت 11 ملکوں سے Free Trade معاہدہ بھی ختم کر دیا ہے جس سے مزید معاشی مسائل پیدا ہونے کا احتمال ہے
برطانیہ کی طرح امریکہ میں بھی چونکہ مالیاتی بحران اور بے روزگاری ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں اس لئے امریکی صدر ٹرمپ کی خواہش پر دو روز قبل برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے پہلا امریکی دورہ کیا جس میں عورتوں کے حقوق، ٹریڈ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی پر بات چیت ہوئی ہے۔
عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ کئی مالی، معاشی اور اقتصادی مشکلات سے دو چار ہو سکتے ہیں اپنی انتخائی مہم کے دوران اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو وہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں.... اس لئے مسلم دنیا ہی نہیں عالمی برادری کو بھی اس معاملے پر تحفظات ہیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ جان کیری تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ امریکی سفارتخانہ اگر بیت المقدس منتقل کیا گیا تو یہ خوفناک اقدام ہو گا کیونکہ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں ہی بیت المقدس کو اپنا درالحکومت بنانے کے دعویدار ہیںجبکہ اس سوچ سے امریکہ کی عرصہ دراز سے چلی پالیسی کا خاتمہ تو ہو ہی جائے گا؟ مگر مسلم دنیا میں پائے گئے غم و غصہ کو کنٹرول کرنا آسان نہ ہو گا۔
جہاں تک پاکستان کے بارے میں امریکی صدر کی سوچ کا معاملہ ہے تو وہ بھی صاف عیاں ہے یہ الگ بات ہے کہ حکومت پاکستان ٹرمپ کی پالیسیوں کواپنے زاویئے سے دیکھ رہی ہے حالانکہ 7 ممالک پر امیگریشن کی کڑی شرائط اور غیر قانونی تارکین وطن کی فوری ملک بدری ٹرمپ کی اولین ترجیحات ہیں 70 سالہ امریکی صدر اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ واضح کر چکے ہیں کہ صدر منتخب ہونے کے بعد بھارت سے وہ بہترین دوستی نبھائیں گے....؟ صرف دوستی ہی نہیں دونوں ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی بڑھایا جائے گا جبکہ ٹرمپ کی عبوری ٹیم کے اہم رکن شبھ کمار نے اعلان کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تیزی آنے والی ہے اس لئے بھارت کے پڑوسی (پاکستان) کے دوہرے معیار کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی والدہ کی پیدائش سکاٹ لینڈ میں ہوئی تھی اسی حوالہ سے ٹرمپ کے ہوٹلز اور گالف کورس سکاٹ لینڈ میں ہیں۔