عالمی ایٹمی جنگ کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے

تعلقات انفرادی ہوں ، اجتماعی یا قومی جہاں ان میں شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں تو ان میں دراڑیں پیدا ہونا ایک فطری امر ہے لیکن فہم فراست کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان شکوک و شبہات کی تحقیقات کی جائے کہ آیا یہ ٹھوس بنیادوں پر پیدا ہوئے یا سنی سنائی بے بنیاد باتوں پر یا پھر کسی ذاتی مفاد کے حصول کے لئے خود ساختہ تخلیق کردہ ہیں۔ یہی حال آج کل پاک امریکہ تعلقات کا ہے جب سے ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس کے مکین ہوئے ہیں۔ بلا کسی جواز اور ٹھوس بنیادوں کے پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں پیدا کررہے ہیں جو ان کے غیر سیاسی ذہن کی عکاسی کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ سے پہلے پاک امریکی تعلقات نہایت خوشگوار تھے اور سابق صدر باراک اوبامہ کے آٹھ (8) سالہ دور میں نقطہ عروج پر تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شکاگو یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر تھے اور 1992ئسے2004ئتک امریکی سینیٹر منتخب ہونے تک بارہ (12)سال تک وہ قانون پڑھاتے رہے۔ امریکہ میں قانون پڑھانے والے پروفیسر کو بہت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی نے انہیں امریکہ کے صدارتی امیدوار کے لیے منتخب کیا اور وہ آٹھ برس تک امریکہ کے صدر رہے۔ قانون کا پروفیسر ہونے کے باعث انہیں عالمی سیاست پر بھی بھرپور دسترس حاصل تھی اور وہ اس کی باریکیاں اور اسرارو رموز کو سمجھتے تھے۔ اب اگر موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی تقابلی جائزہ لیں تو صدرٹرمپ کا سیاسی کیرئیر بڑا مختصر سا ہے۔ انہوںنے 2012ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے حوالے سے پہلی سیاسی تقریر 2011ء میں کنزرویٹو پولیٹکل ایکشن کانفرنس میں کی جس پر کنزرویٹوز نے نہ صرف احتجاج بلکہ بائیکاٹ کیا تو اس طرح صدر ٹرمپ عالمی سیاسی امور سے تہی دست نظر آتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ٹرمپ ماہرین سیاست یا پھر اپنے پیشرو اوبامہ سے رہنمائی لیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ایسے فیصلے اور اعلانات کئے جس پر امریکی عوام لاکھوں کی تعداد میں سٹرکوں پر نکل آئے اور انہوں نے سخت احتجاج کیا اور امریکی سپریم کورٹ نے ان کے بعض فیصلوں پر حکم امتناعی بھی جاری کیے۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے ساتھ ہی امریکہ میں عوامی احتجاج شروع کر دیا گیا۔ ادھر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی مسلم دشمن اور دیگر نامناسب پالیسیوں پر بھارت میں بھی احتجاج کی ایک لہر اٹھی۔ یہاں تک بھارتی دانشوروں اور ممتاز شخصیات جن کا تعلق فنون لطیفہ اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تھا نے بھارت سرکار کی طرف سے دئیے گئے قومی اعزازات واپس کرنا شروع کردئیے۔ اور یوں اس حوالے سے صدر ٹرمپ اور نریندر مودی کے مابین مسلم دشمنی ایک قدر مشترک ٹھہری جو ہر دو کو ایک دوسرکے قریب لے آئی اور صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بھرپور اور نتیجہ خیز جدوجہد کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان پر طرح طرح کے بے بنیاد الزامات کا آغاز کر دیا اور پاکستان کو دی جانیوالی امریکی امداد بھی بند کر دی مگر حکومت پاکستان اور افواج پاکستان نے جرأت مندانہ انداز میں امریکی امداد کی بندش کیخلاف واضح طور پر کہا ہے کہ انہیں بھی امریکی مالی تعاون کی چنداں ضرورت نہیں وہ اس کے بغیر بھی دہشت گردی کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے ۔ ادھر بھارت اور امریکی گٹھ جوڑ جاری رہا اور صدر ٹرمپ کی غیر سنجیدہ حکمت عملی اور سیاست کے باعث وہ بھارت کے ترجمان نظر آنے لگے اب ان امریکی خواہشتات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو براہ راست بھارت کے مفاد میں ہیں۔

1… امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان کی سرحد بند نہ کرے کیونکہ یہ بھارتی مفاد میں نہیں ہے۔2… امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کرے جو بھارت کی خواہش ہے۔3…امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان ، پاک چین سی پیک معاہدے سے انحراف کرے کیونکہ بھارت اسے نا پسند کر تا ہے۔4…امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اُن 29 این جی اوز پر سے پابندی ہٹا لے اور انہیںدوبارہ پاکستان میں کام کرنے دے۔ یہ وہ این جی اوز ہیں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور امریکی ’’سی آئی اے‘‘ کے لیے کام کرتی ہیں۔5…امریکہ چاہتا ہے کہ حافظ سعید اور ان کی عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں کو ختم کر دیا جائے یا پھر ان پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ بھارتی دہشت گرد ان سے خوفزدہ ہیں۔6… پاکستان کے خلاف کام کرنے والے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کوکھلم کھلا کام کرنے دے تاکہ وہ ’’را‘‘ اور ’’سی آئی اے ‘‘ کے لیے دوبارہ فعال ہوجائیں ۔7…امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان 30لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں قیام کرنے دے جو کہ پاکستان پر ایک بوجھ ہیں تاکہ ان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرائی جا سکے جو امریکہ اور بھارتی مفاد میں ہے۔8…امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کا جھکائو چین اور دیگر دوست ممالک کی بجائے بھارت اور امریکہ کی طرف ہو تاکہ وہ پاکستان سے اپنی من مانی کرا سکیں۔9…امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان’’ بش ڈاکٹرائن‘‘ کا احیا کرے تاکہ خطہ میں جنگی صورتحال پیدا کی جا سکے جو بھارتی اور امریکی مفاد میں ہے۔10…امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں بھارت کے کردار کو قبول کرلے کیونکہ بھارت نے افغانستان میںدو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اس کو تحفظ حاصل ہوسکے۔
یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ قطع نظر بھارت کے مفاد میں امریکی خواہشات پر حکومت پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستانی سیاستدان ملکی اور قومی مفاد کے پیش نظر کامل یکجہتی اور مکمل اتحاد کا مظاہرہ کریں اور امریکی بھارتی گٹھ جوڑ کے خلاف ایک آواز ہوں۔اس حوالے سے پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ دوست ممالک کے ساتھ روابط کو اور مضبوط کرے علاوہ ازیں چین ، روس ، ایران ، ترکی اور خلیجی ممالک کے ساتھ پہلے سے موجود تعلقات کو مزید مستحکم کرے اور انہیں باور کرائے کہ پاکستان خلیج کے دہانے پر واقع ہے اور ایک ایٹمی قوت بھی ہے اور ہمارا دوست چین بھی اسی قوت کا حامل ہے اور ہم سے چھیڑ چھاڑ کسی بھی طرح عالمی مفاد میں نہیں اور اگر اب بھی امریکہ اور بھارت نے اپنی روش میں تبدیلی پیدا نہ کی تو نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے کہ کیونکہ ان کی حرکتوںسے عالمی ایٹمی جنگ کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔

ای پیپر دی نیشن