ہم وزیراعظم عباسی کی بات کو درست سمجھیں یا سابق وزیراعظم نواز شریف کی بات کو؟ 2 فروری کو عدالت عظمی سے نااہل ہو کر وزارت عظمی سے محروم ہونے والی مسلم لیگ کے صدر نے کہا تھا ’’وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہو چکا ہے‘‘ جب کہ کراچی میں موجودہ وزیراعظم عباسی نے 4 فروری کو کہا ’’نوازشریف میری پارٹی کے صدر ہیں۔ ڈکٹیشن کا تاثر غلط ہے پانچ ماہ ہو گئے ہیں آج تک نواز شریف نے یہ نہیں کہا کہ یہ کام ایسے کریں یا ویسے کریں۔ مجھے ان کی طرف سے کوئی ہدایات نہیں ملی۔ ڈکٹیشن کا تاثر غلط ہے‘‘۔ وزیراعظم کا عہدہ کب مفلوج ہوا؟ اس پر بات ذرا آگے جا کر کرتے ہیں کہ میرے سامنے مالدیپ کا دلچسپ معاملہ آ گیا ہے کہ مالدیپ میں ’’بھی‘‘ صدر مالدیپ کے خلاف دوٹوک فیصلہ سپریم کورٹ کی طرف سے ’’صادر‘‘ ہوا ہے کہ صدر مالدیپ کو عدالتی حکم نہ ماننے پر ان کے حکومتی اقدام کو بغاوت قرار دے دیا ہے اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر ممالک نے مالدیپ حکومت کے (سپریم کورٹ حکم کو نہ ماننے والے) ’’اقدامات‘‘ کی مذمت کی ہے ملک میں قانون (سپریم کورٹ فیصلے) کی بحالی پر زور دیا ہے۔ اصل خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور صدر مالدیپ یعنی حکومت آمنے سامنے ہیں) یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں چیف جسٹس نے پاکستان سپریم کورٹ کی فعالیت اور قانون نافذ کرنے کے حسن عمل کی یہ کہہ کر تعریف کی تھی کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے دو وزرائے اعظم (یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف) کو نااہل کیا اور سختی سے قانون نافذ کیا تھا۔ گویا انہوں نے بنگلہ دیشی وزیراعظم کو متنبہ اور متوجہ کیا تھا کہ آپ کا معاملہ پاکستانی دو وزرائے اعظموں کی طرح کا بھی ہو سکتا ہے۔ تب سے بنگلہ دیشی چیف جسٹس معتبو ہوئے۔ تاہم ہمارا مقصد پوری دنیا میں بالعموم اور برصغیر کے خطے میں بالخصوص چیف جسٹس صاحبان اور سپریم کورٹ کے ججوں کی مؤثر فعالیت، قانون و آئین کی پاسداری اور اس پر عملدرآمد کرانے کا معاملے کو سامنے رکھنے کی استدعا ہے۔ یہ تو درست ہے کہ آمر مطلق اور وردی پوش صدر مشرف کے عہد میں وزیراعظم جمالی کو کچھ عرصہ بعد ’’مفلوج‘‘ وزیراعظم بنا دیا گیا تھا۔ ان کے آئینی اور قانونی اختیارات کی روشنی میں فیصلوں اور احکامات پر عمل بھی درآمد روک دیا گیا تھا۔ مجھے اس حوالے سے کچھ ذاتی مشاہدات بھی حاصل ہیں، لیکن سوال ہے کہ کیا جناب نواز شریف خود بطور وزیراعظم ’’مفلوج‘‘ نہ تھے؟ کیا ان کی لخت جگر مریم نواز شریف، (تلمیز رشید محترمہ جگنو نجم سیٹھی) نے ان کے منصب، عہدے کو مفلوج نہ کیا ہوا تھا؟ اگر قومی اسمبلی کی رکن نہ ہونے اور وفاقی کابینہ کا حصہ نہ ہونے اور بغیر حلف اٹھائے حکومتی فیصلہ سازی کے مراحل ان کی لخت جگر استعمال کرتی تھی تو کیا ان دنوں میں خود نواز شریف مفلوج وزیراعظم نہ تھے؟
اگر کسی کو ذرا سا بھی شبہ رہے تو کیا مریم نواز کی فعالیت، نواز شریف کے ساتھ اہم فیصلوں میں شامل ہونا جلسوں میں خطاب اور کابینہ میں ان کی پسند کے مطابق شخصیات کو وزارتیں ملنا ہمارے مؤقف کا مؤید نہیں ہے؟ اب شہباز شریف، حمزہ شہباز اور چودھری نثار کی موجودہ (ن) لیگ یعنی عملاً مریم لیگ میں کوئی اہمیت نہیں رہے۔ یہ سب ’’سراب‘‘ دیکھ رہے ہیں جو دور سے ’’پانی‘‘ نظر آتا ہے مگر عملاً پانی نہیں بلکہ زمین میں ریت کے ذرے چمک رہے ہوتے ہیں۔ سینٹ کی ٹکٹوں کے حوالے سے جو فیصلے ہوں گے ان میں وزیراعظم عباس، وزیراعلیٰ شہباز شریف کا زیادہ عمل دخل شاید نہیں ہو گا۔ 5 فروری کے کئی اخبارات نے چترال میں کی گئی وزیراعظم کی تقریر کی جو خبر شائع کی ہے اس کے مطابق ان کا ارشاد ہے کہ ’’عدلیہ اور آئین کی تضحیک قبول نہیں‘‘ ہم ادب سے توجہ دلاتے ہیں اپنے نہایت ذہین، فعال اور حسن کارکردگی رکنے والے وزیراعظم جناب عباسی کو کہ کیا ان کے پارٹی صدر مسلسل عدلیہ اور آئین کی تضحیک میں مصروف نہیں ہیں؟ ان کی لخت جگر بھی اپنے باپ کے ہمرکاب یہی ’’حسن کارکردگی‘‘ نہیں پیش کر رہی؟ جناب شاہد خاقان عباسی کی امانت و دیانت اور اہلیت کا گواہ سیاسی طویل ان کا حسن عمل رہے۔ ان کی پارٹی ڈسپلن کی مجبوریاں ہمارے سامنے ہیں۔ مگر ہم نہایت ادب سے جناب وزیراعظم کو آگاہ کر رہے ہیں کہ ذاتی طور پر جناب نواز شریف جو بقول وزیراعظم ان کے پارٹی صدر ہیں اور ان کی لخت جگر بھی ان کی وفاقی حکومت کو ختم کرکے مارشل لگوانے میں دن رات مصروف ہیں۔ اگر سینٹ الیکشن تک بات آ گئی ہے تو یہ بھی صرف جناب وزیراعظم عباسی اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے تدبروفراست اور معاملہ فہمی کا ’’ثمر‘‘ رہے یا فوج کی جمہوریت پسندی کا عکس سینٹ الیکشن اور اس کے بعد سینٹ انتخابات مرحلہ شروع ہونے چا رہا ہے۔ جناب مشاہد حسین سید واپس مسلم لیگ (ن) میں آ چکے ہیں اور انہیں اسلام آباد سے سینٹ (ٹکینو کریٹ) کا ٹکٹ بھی دیا جا چکا ہے جبکہ ہمیں سینٹ الیکشن کے دنوں میں اور اس کے بعد بھی اپوزیشن میں ’’ مزید تقسیم‘‘ ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ چونکہ ہمیں مشاہد حسین سید سے پیار ہے لہٰذا انہیں بتا رہے ہیں کہ شاید جس جگہ وہ پہنچ گئے ہیں وہاں اندر سے بہت زیادہ مخالفت کا انہیں سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ سینٹ الیکشن کے دوران اور بعد میں ہمیں بہت زیادہ اشتعال زدہ ماحول نظر آ رہا ہے ایسا بالکل ممکن ہے کہ سینٹ الیکشن کے خاتمے کے بعد ہمیں عدالتوں سے نوازشریف اور ان سے وابستہ شخصیات کے خلاف سخت ترین اقدامات دکھائی دیں لہٰذا ذرا مالدیپ کے سپریم کورٹ کے صدر کے خلاف فیصلے اور اقدامات اور فوج کے صدر کو گرفتار کرنے کے عمل میں مضر اشارت کو سامنے رکھیں۔ شیخ رشید نے اگرچہ سپریم کورٹ میں وزیراعظم عباسی کے خلاف کرپشن کے حوالے سے درخواست دے رکھی ہے تاہم یہی تحریر ہمیں مستقبل قریب میں بیرونی شدید دبائو، بلیک میلنگ اور اندرونی طور پر انارکی، انتشار، شدید عدم استحکام نظر آتا ہے۔ اس بے قابو ماحول میں بیچاری فوج کیا کرے گی؟