کوئی تو ہے…

Feb 06, 2018

خالد محمود ہاشمی

بوئی فصل ہی کاٹنا پڑتی ہے ن لیگ کی بیچی ہوئی فصل کی کٹائی شروع ہو چکی ہے پہلا گٹھا نہال ہاشمی اڈیالہ جیل بھیجا گیا ہے۔ باقی فصل بھی اڈیالہ کے گودام میں لائی جائیگی۔ عدالت عظمیٰ سے محاذ آرائی سراسر گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ نہال ہاشمی بطور سینیٹر عدالت عظمیٰ پہنچے لیکن واپسی پر پارلیمنٹ لاجز کی بجائے اڈیالہ جیل ان کی منتظر تھی ایک ماہ اڈیالہ جیل کا قیام نہال ہاشمی جیسے جہاں دیدہ شخص کو یہ ضرور بتائے گا کہ بڑھک بازی فلموں میں تو چل جاتی ہے عملی زندگی میں بڑھک لُڑھک بھی دیتی ہے۔ مئی2017 میں نہال ہاشمی گرجتے ہوئے بادل تھے جو برس نہ سکے اسے کہتے ہیں کیا پدی کیا پدی کا شوربہ ایسے شخص کو کون دانا اور زیرک کہہ سکتا ہے جو جوش خطابت میں مائیک گرا دے اخبارات کے صفحہ اول پر اپنی خبر دیکھ کر نہال ہو لیکن بعد میں معافی نامے داخل کرتا پھرے اسی لئے تو پروردگار نے بھی سورہ صف میں کہا کہ مومنو وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ قید، جرمانہ اور نااہلی نہالی کیلئے کافی نہیں؟ کم از کم نہال کی ذریت بھی زبان درازی سے توبہ کریگی۔ نہال ن لیگ کی رکنیت تو اسی وقت کھو بیٹھے تھے جب انہوں نے اعلی عدلیہ کیخلاف اکھاڑے میں بطور جھارا پہلوان قدم رکھا تھا۔ یہ تو ن لیگ کی مہربانی کہ ان کی گاڑی سے سینیٹر کی پلیٹ نہیں اتاری تھی۔ 

فصل کی کٹائی سے کسان تو خوش ہوتا ہے کہ اسکی محنت رنگ لائی اور کمائی کا وقت قریب آیا لیکن سیاسی فصل کی کٹائی دیکھ کر نوازشریف کی پریشانی میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے وہ اپنے سینے پر غم کا بوجھ اتارنے جا رہے ہیں ان کا کہنا ’’ملک میں جمہوریت مشکوک، وزیراعظم مفلوج ہے‘‘ صحیح ہو بھی ہو سکتا ہے۔ عدلیہ مخالف بیانات پر طلال کے بعد دانیال کی طلبی نے سیاسی فصل کی کٹائی کے یقینی ہونے کا اشارہ دے دیا ہے۔ نواز شریف کا الزام ہے کہ عدالت نے ہمیشہ آمروں کا ساتھ دیا اب تو کمشن بنانے پر پابندی لگ چکی ہے۔ کمشن اور کمیٹیوں نے ملک کو جو دیا ہے وہ سامنے ہے حمودالرحمان کمشن بنانے سے نہ بنگلہ دیش واپس مشرقی پاکستان بن سکا تھا نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان غدار ٹھہرے تھے نواز شریف نے تسکین قلب کیلئے ایسے کمشن کا مطالبہ کیا ہے جو پانامہ، عمران اور ترین سمیت تمام سیاسی مقدمات کا تقابلی جائزہ لے۔ اگر الزام یہ ہے کہ عدلیہ نے ہمیشہ آمروں کا ساتھ دیا تو یہ بھی غلط نہیں کہ سیاست دان بھی آمروں کی نرسریوں سے شجر سایہ دار بنے انہیں باوردی دیکھ کر نہال ہوتے تھے اور اگر عدلیہ بھی نظریہ ضرورت کو سامنے لاتی تو کسی بھی آمر کا کیا بگاڑ لیتی کتنا ہی بہادر اور نڈر شخص گھر میں گھسے چور ڈاکو کا کیسے مقابلہ کر سکتا ہے جان کی امان سبھی چاہتے ہیں جس کی لاٹھی یا جسکے پاس لاٹھی ہو بھینس اسی کی ہوتی ہے۔ نہال کے بعد طلال اور دنیاال، پھر چل سو چل ہونے جا رہا ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ منتخب وزیراعظم کی توہین کرنے پر سزا ہونی چاہئے لیکن ایسی توہین پر کون سی عدالت توہین وزیراعظم پر سزا دیگی۔ دنیا بھر کی عدالتوں اور قوانین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ’’توہین وزیراعظم‘‘ کا بھی قانون ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں توہین کے حوالے سے دو ہی قانون چل رہے ہیں۔ توہین رسالت اور توہین عدالت 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ نئے مینڈیٹ کے بعد توہین وزیراعظم کا نیا قانون لا سکتی ہے جو دنیا بھر میں عدیم النظیر قانون کہلائے گا لیکن اس قانون کے بعد وزیراعظم کو ظل سبحانی کا درجہ مل جائیگا۔
نوازشریف کے بقول وزیراعظم کاعہدہ مفلوج ہو چکا ہے تو پھر شاہد خاقان عباسی بھی مفلوج وزیراعظم ٹھہرے کچھ بھی ہے انکے نام کے ساتھ لفظ وزیراعظم تو جڑا ہوا ہے تاریخ پاکستان میں وہ سابق وزیراعظم تو کہلائیں گے یہ تو نہیں لکھا جائیگا ’’سابق مفلوج وزیراعظم‘‘ نوازشریف صاحب نااہل ہو کر سابق وزیراعظم کہلاتے ہیں کیا میڈیا انہیں سابق نااہل وزیراعظم لکھتا یا کہتا ہے؟ صاحبان عقل جان گئے ہیں کہ دور حاضر دراصل دور احتساب ہے۔ نیب سچ مچ مستعد اور فعال ہے اب کوئی فائل الماری میں بند نہیں رہے گی۔ عمران خان کے خلاف خیبر پی کے کے سرکاری ہیلی کاپٹروں پر دوروں کی تحقیقات شروع ہو چکی ہے۔ پی ٹی وی میں دور قاسمی کی تحقیقات بھی جاری ہے سپریم کورٹ کو بتایا گیا ان کی تنخواہ پندرہ لاکھ تھی اور دو سال میں انہوں نے 27 کروڑ روپے خرچ کئے۔ محمود خان اچکزئی کا بھی غبار دل سامنے آیا ہے کہ مارشل لا کا ساتھ دینے والے ججوں کو بدترین قرار دیا جائے وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور مشرف کے ادوار کو کالعدم قرار اور ان سے جڑے ہوئے سیاسی ہمنوائوں کو بھی بدترین قرار دیا جائے ایسا کارنامہ تو انکے سیاسی مرشد عالی مقام کی بھاری مینڈیٹ والی آئندہ پارلیمنٹ ہی انجام دے سکتی ہے اور کوئی نہیں۔ لگتا ہے نوازشریف ایک عدالتی جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔
جس طرح آمر ضیاالحق اور پرویزمشرف ناقابل فراموش ہیں اسی طرح ارشاد حسن خان اور افتخارمحمدچودھری جیسے جج بھی نہیں بھلائے جا سکتے ایک نے مشرف کی بیعت کی اور دوسرے نے بیعت سے انکار کیا۔ نواز شریف سازشوں کا ذکر کرنا بند کر دیں ان اصحاب سے مشورہ لیں جن کا ن لیگ سے کوئی واسطہ اور نہ ان سے کوئی مفاد ہے ایسے مخلص ڈھونڈنے سے مل جائینگے۔ نہال، طلال اور دانیال سے بھی اعلی کوالٹی کے جمہوریت اور عوام دوست لوگ موجود ہیں کبھی ایسے لوگوں کی ڈور بیل بجا کر تو دیکھیں۔ ڈان لیکس کے بعد باوردی اصحاب کو ٹھیس پہنچی تھی اسکے بعد بھروسہ نہیں رہتا۔ ازخود نوٹس پر وہی لوگ سیخ پا ہوتے ہیں جو جمہوری نظام کے ڈرائیوروں کی اندھا دھند ڈرائیونگ کے باوجود چالان کے حق میں نہیں ہیں۔ جرائم اور بے خوفی عروج پر ہے۔ ازخود نوٹس ہی بڑے بڑے مگرمچھوں کو کٹہرے میں لائیں گے۔ ’’سوموٹو‘‘ بھی بحث طلب موضوع ہے یہ عدلیہ کی آنکھ اور کان ہے جہاں کہیں گورننس میں فاش غلطیاں یا انسانی بنیادی حقوق سے متصادم خرابی دکھائی دیگی ’’بابا رحمتے‘‘ حرکت میں آ سکتا ہے بعض کے نزدیک سوموٹو اختیارات نظام عدل کو زیادہ شفاف بنانے کیلئے ہیں ایسے ہی لوگوں کے خیال میں فوری انصاف کوئی انصاف نہیں۔ حالیہ دنوں میں چیف جسٹس کا سوموٹو کے حوالے سے متحرک اور فعال دکھائی دینا بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ عدلیہ کی نچلی سطخ واقعی بگاڑ کا شکار ہے اس سطح پر کرپشن اور ناانصافی کا احتساب کون کریگا۔ دیوانی مقدمات میں عمر کا گزر جانا اور پرنالے کا وہیں کا وہیں رہنا انصاف کے کون سے زمرے میں آتا ہے؟

مزیدخبریں