پر اُمید مستقبل

2019کے آغاز میںعمران خان نے اپنے دورۂ ترکی میں واضح بیان کے ذریعے بد عنوانی سے نمٹنے کے عزم کو اپنی حکومت کی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ بیان سفارتی آداب کے منافی تھا، لیکن بہت سے لوگ اس بیان کو حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار د ے رہے ہیں۔ انسدادِ بد عنوانی کا نعرہ اگرچہ’’ سعیئِ مقبولیت‘‘ ہو سکتا ہے لیکن یہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد آرمی اور بیوروکریسی کو ان خطوط پر تشکیل دیا گیا کہ وہ عوم کو غیر ملکی بادشاہ کا فرمانبردار اور ماتحت بنا سکیں۔ قانون ساز فریم ورک بھی فلاحی ریاست کے قیام کے مقاصد سے عاری تھا۔ آغاز سے ہی تضادات نے جنم لے لیا۔ عیش و آرام میں مبتلا حکمرانوں نے سول بیوروکریسی اور فوجی تنظیمی ڈھانچے کی عوامی سہولیات کیمطابق تشکیلِ نو پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ بیوروکریٹک بے حسی ہی تھی جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلافات اور دوریوں کی وجہ بنی۔ سیاسی مقاصد کیلئے اہم عہدوںپر من پسند افراد کی بھرتیوں کی اجازت نے ریاستی اداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ ڈھاکہ کی علیحدگی حکومتی نا اہلی اور بد عنوانی کا پہلا شاخسانہ تھی جبکہ بعد میں فوجی مداخلتوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ بد عنوانی کا دوسرا سیلاب پیپلز پارٹی کے اداروں کو قومیانے سے آیا۔ اقتصادی منصوبہ بندی اور نجی سرمایہ کاری میں سرخ فیتے کے نظام اور براہِ راست سیاسی مداخلت نے پنجے گاڑے۔ نجی کاروباری اداروں کو سرکاری تحویل میں لیکر سیاسی دستبرد میں دیدیا گیا۔ کامیابی سے چلنے والے اداروں کو نا اہلوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور بدعنوانی کاروباری افادیت اور تجارت کی توسیع میں رخنہ انداز ہوئی۔ حکمرانوں اور سرکاری افسران کے ذاتی مقاصد کیلئے کیے گئے گٹھ جوڑ نے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے جنرل ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا اور تنزلی کا سفر شروع ہوا۔ اداروں کو ڈی نیشنلائز کرنے کی پالیسی نے فائدے کی بجائے مزید نقصان پہنچایا۔ اس بار قومیائے گئے اداروں کو پھر سے نجی شعبے کے سپرد کیا گیا لیکن اس میں بھی اہل افراد کی بجائے من پسند افراد کو نوازا گیا۔ شریف خاندان غیر متوقع طور پر سامنے آیا اور سیاست میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔ فوجی مداخلتوں اور معاشی شارٹ کٹس کی وجہ سے قومی معیشت سنبھل ہی نہ پائی۔ طاقت اور پیسہ بڑی حد تک بین الاقوامی سطح پر تبدیلیوں کا باعث بنے ۔ یہاں بھی غیر قانونی ذرائع سے اضافی مالی وسائل ، اقتدار اور اثر و رسوخ کے حصول کی دوڑ نے سیاسی ، سماجی منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ استحصال ، اقربا پروری اور رشوت خوری کا یہ نظام کبھی بدلا بھی جا سکتا ہے۔ 2008اور 2013کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بد عنوانی کے ضمن میں 8.5ٹریلین ڈالرز پاکستان میں بدعنوانی کی نذر ہوئے۔ 2013میں اقوامِ متحدہ میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سینئر تجزیہ کار عادل گیلانی کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اگر پاکستان بدعنوانی پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے تو اسے کسی ملک سے ایک روپیہ امداد لینے کی ضرورت نہ رہے۔ حکومتی ، نیم سرکاری اور ریاستی اداروں میں اصلاحات کے فقدان کی بدولت گزشتہ چالیس سال میں بد عنوانی ملک کے ہر شعبے میں سرایت کر گئی۔ نچلے درجہ کے سرکاری افسران کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر کے بیورو کریسی میں ادارہ جاتی بد عنوانی کو فروغ دیا گیا۔ اس نے کسی کینسر کی طرح کئی دہائیوں تک نظامِ حکومت کو مفلوج کیے رکھا۔ شفافیت کے فقدان، ناکافی تنخواہوں اور سیاسی مداخلتوں نے ایمانداری کے امکانات کو بد ترین حد تک معدوم کر دیا۔ قومی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے والے اربوں روپے کے بدعنوانی کے قابلِ ذکر کیسز پر نظر ڈالتے ہیں۔ ٭ رینٹل پاور پراجیکٹس سکینڈل ٭ پی ایم ڈی سی رجسٹریشن سکینڈل ٭ پی آئی اے کرپشن کیسز٭ حج کرپشن کیسز ٭ اوگرا کرپشن کیسز ٭ نیٹو کنٹینر کیسز ٭ سٹیل ملز کرپشن کیسز ٭ پاکستان ریلوے کرپشن کیسز ٭ این آئی سی ایل کیسز٭ ایفیڈرین کیسز ٭ میڈیا گیٹ سکینڈل ٭ الیکٹرانک میڈیا ادائیگیوں کے کیسز۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کیمطابق 2018میں سروے کردہ 256ٹیکس دہندگان میں سے 99فیصد کا کہنا تھا کہ رشوت کے ذریعے ٹیکس کی شرح میں کمی بیشی کروائی جا سکتی ہے۔ پولیس میں اب تک نچلی سطح پر بد عنوانی اور سیاسی اثر و رسوخ موجودہے۔ زمینوں کی ملکیت ، تعمیرات ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی تنخواہوں، کٹوتیوں اور براہِ راست رشوت کے ذریعے بد عنوانی جڑیں پکڑ چکی ہے۔ آج پاکستان 180بد عنوان ممالک کی فہرست میں 117ویں نمبر پر ہے۔ ان حالات پر فی الفور قابو پالینا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔ عمران خان ایک نا پسندیدہ اور کڑی مثال قائم کرنے جا رہا ہے، جسکے نتائج آنیوالے دنوں میں سامنے آئینگے۔ قوم کے نوجوانوں کو پر اُمید ہو کر اسکی پیروی کرنی چاہیے۔ جب سیاسی حالات مستحکم ہو جائینگے تو بالآخر نوجوان خود کو ایک ایسے ملک میں پائینگے جو رشوت اور بد عنوانی سے پاک ہو گا۔ یہ ایک پر اُمید مستقبل کا سفر ہے۔ ملکی تناظر میں دیکھیں تو ایمانداری اور قابلیت کے فروغ نے سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسنے کی بجائے پاکستان چین ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مالی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ پاکستان اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اگرچہ یہ مشکل وقت ہے لیکن بالآخر اس کا صلہ ضرور ملنے والا ہے۔

ای پیپر دی نیشن