امریکہ کے سابق صدر نکسن نے اپنی کتاب ’’دی ایرینا‘‘ میں ایران کے شہنشاہ رضا پہلوی کی دیار غیر میں تدفین پر اس وقت کی امریکی حکومت کی بے وفائی اور بے حسی اور عام امریکی قوم کی بے اعتنائی کا جس درد مندی سے ذکر کیا ہے اور جنوبی ایشیا میں امریکہ کا ایک طویل عرصہ تک قابل اعتماد دوست بلکہ اس خطہ میں امریکی چودھراہٹ کیلئے اپنے تن من دھن کو قربان کرکے علاقے کا امریکی تھانیدار بننے والا شہنشاہ ایران جس کسمپرسی سے اس جہان فانی سے رخصت ہوا، صدر نکسن نے اسے بہت بڑی عبرت کا مقام قرار دیا اور شہنشاہ کی تدفین کے موقع پر امریکی حکومت کے کسی ادنیٰ سے عہدیدار کے بھی شریک نہ ہونے پر صدر نکسن لکھتے ہیں آج شہنشاہ ایران کی آخری رسومات ہیں۔ امریکہ کی بے اعتنائی پر مجھے بار بار پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خاں کا وہ فقرہ یاد آرہا ہے جب میں نے انکے ساتھ امریکہ کے ساتھ دوستی کے حوالے سے بات کی تو ایوب خاں نے کہا امریکہ کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی اسکے ساتھ تو محتاط تعلقات کی پالیسی ہی بہتر ہے اور پھر شہنشاہ ایران نے امریکہ کو خوش کرنے اور اسکا خطے میں اکلوتا چہیتا بننے کیلئے جتنے جتن کئے اور جو بظاہر اسکے اعتماد کو بڑھانے کا موجب بنے وہ شہنشاہ کے زیرعتاب آئے یا اقتدار سے ہٹنے کے اشارے ملنے کیساتھ ہی کم ہونا شروع ہوگئے اور اسکی زندگی میں ہی ختم ہوگئے اور آج اسکی موت پر ‘‘جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں‘‘ والی کیفیت بیان کرتے ہوئے امریکہ کا اتنا مدبر صدر اپنی قوم کی بے حسی اور بے وفائی پر آزردہ ہونے کیساتھ مستقبل میں امریکیوں پر اعتماد کرنے کے حوالے سے اقوام عالم کو جس جگہ دیکھتا ہے وہ ایک محب وطن امریکی کیلئے روح فرسا حادثہ سے کم نہیں۔
مانا کہ صدر نکسن اپنے دور اقتدار میں واٹرگیٹ سکینڈل میں ٹریپ ہوگیا مگر اسکی دانائی، معاملہ فہمی اور عالمی سطح کے مدبر ہونے کی ساری صلاحیتیں اس میں مرتے دم تک موجود رہیں اس ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر اسکے عملی مقام و مرتبہ اسکی عالمی اور ہر منفرد اور معقول سوچ اور خود احتسابی اور اپنی قومی احتسابی کے ذمہ دار موقف آج بھی اتنے ہی اہم ثابت ہو سکتے ہیں جتنے اسکے دور میں یا اسکے کچھ عرصہ بعد ہوتے تھے۔ میں صدر نکسن کی غیر معمولی صلاحیتوں کا انکے جانے کے بعد آنیوالے کسی امریکی صدر میں بجز بارک اوماما عشر عشیر بھی نہیں دیکھتا اور واٹرگیٹ سکینڈل کو اسکے جوہر کو گہنانے میں ہر گز ناکام سمجھتا ہوں۔ واٹر گیٹ سکینڈل کو جس طرح صدر نکسن اور اسکی حکومت نے مس ہینڈل کیا اسکی اسے سزا صدارت سے علیحدگی کی صورت میں مل گئی ویسے بھی بیسویں صدی کا ایک مدبر بوسکاگلیو ایسے موقع پر انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں ایک ہزار ڈالر ادا کرنے پر اپنے لیکچر سننے کیلئے رجسٹرڈ ہونے والوں کو اپنے ایک لیکچر میں یہ دائمی نسخہ دے گیا تھا:
''One act is not Sufficient reason to de-value a person''
کسی کا ایک عمل اس شخص کی اہمیت کم کرنے کیلئے کافی شمار نہیں ہونا چاہئے یعنی کسی کو بے توقیر کرنے کیلئے اسکی ایک غلطی مناسب جواز کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی۔
مجھے صدر نکسن کی یہ ساری باتیں امریکی حکومت کی طرح سے افغانستان سے اگلے ڈیڑھ سال میں چلے جانے کے مجوزہ فیصلے کو جان کر یاد آگئی۔ ویسے تو اس سے پہلے بھی امریکہ ایک سے زائد بار افغانستان سے جانے کا اعلان کرکے مُکر چکا ہے مگر اب کے پاکستان نے واقعی وہ کر دکھایا جس کی امریکہ کی کسی حکومت نے پاکستان سے سنجیدگی سے توقع نہ رکھی وہ اپنی عسکری اور افغانستان یا اس خطہ میں اپنی پایسیوں کی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر یہاں ڈرون حملے کرتا رہا اور پاکستان کے حکمرانوں کو ’’ڈومور‘‘ کیلئے دھمکی آمیز لہجے میں اتنی بار یہ مطالبہ دہرا چکا تھا کہ پاکستان کوتاریک دور میں دھکیل دینے کی دھمکی بظاہر مکے لہرانے والے جنرل مشرف پر کام کر گئی اور وہ ایک کال پر ڈھیر ہوگیا۔ بین الاقوامی سیاسی پیچیدگیوں اور باڈی لینگوئج سے اپنی نالائقی کو تسلیم کرانیوالے یا خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر کسی امریکی صدر سے بات کرتے تھے تو یا سرد موسم میں گرم سوٹ میں ملبوس اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کرکے ہاتھ میں پکڑی پرچیوں سے پڑھتے ہوئے اپنی پریشانی اور نالائقی دونوں کو بول کر بتانے سے زیادہ موثر انداز میں ابلاغ کر ا رہے تھے۔
عمران خان نے پاکستان پر سارے مالیاتی اور داخلی دبائو کے باوجود خارجی محاذ پر وہ کچھ کر دکھایا ہے جس کا مناسب انداز سے اظہار کرنے میں انکی حکومت کے جملہ اہلکار اور وزراء کچھ شرماتے شرماتے رہے اور سوائے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے کسی کے پلّے یہ خارجی سطح کی فتوحات پڑی ہی نہیں۔ گستاخانہ کارٹوں پر عمران حکومت کے موقف کو عالمی سطح پر پہلی دفعہ تسلیم کرکے اس ڈرامے کا ڈراپ سین سیاسی حریفوں کو گالیاں دینے والے وزراء کے ذہن میں کیونکر آئے گا۔
افغان طالبان اور امریکہ میں مذاکرات کا اہتمام کرکے پاکستان کی حکومت نے جو مثالی کردار ادا کیا ہے اسکے نتیجہ میں قطر میں ہونیوالے یہ چھ روزہ مذاکرات نئی جہتوں کو متعارف کرا کے کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے آنے کے بعد صدر ٹرمپ سے پہلے ہر امریکی صدر نے طالبان کو لوہے کے چنے چبانے اور انہیں غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے میں تقریباً تین دہائیاں ضائع کر دیں اور ہر امریکی صدر پاکستان کو ہر چوتھے روز ’’ڈومور‘‘ کا حکم دیتا۔ عمران خان نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا اور مذاکرات سے معاملات کو سلجھانے اور نمٹانے کی حکومت عملی میں تعاون کرنے کی پیشکش کر دی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو امریکی صدور کے طرزعمل کو مسترد کرکے پاکستان کی حکومت سے امریکہ کے افغان طالبان سے مذاکرات کرانے کا اہتمام کرنے اور اس خطے میں قیام امن کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنے اور امریکہ کی مدد کرنے کی جو درخواست کی اسکے نتیجہ میں یہ مذاکرات ہوئے جن میں افغانستان میں جنگ بندی اور ڈیڑھ سال میں امریکہ کی فوجیوں کے انخلاء کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ افغان سرزمین کو القاعدہ اور داعش کیلئے استعمال نہ کرنے کی ضمانت خطے میں امن کی ضامن رہی ہے۔ جنگ بندی کے بعد امریکی حکومت سے طالبان براہ راست بات چیت کرینگے اور ڈیل شدہ معاملات بھی زیربحث آئینگے۔ طالبان کے نمائندے اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل نے معاہدے میں طالبان رہنمائوں پر سفری پابندیوں کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے کی نوید بھی شامل کر لی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا کام اگرچہ اس سال کے آخر تک مکمل ہوگا مگر جتنا کام ہو چکا ہے اس سے پاکستان میں در آنیوالے دہشت گردوں کا عملاً ناکہ بند ہوچکا ہے اور پاکستان اس جانب سے محفوظ ہوچکا ہے جس کا سارا کریڈٹ فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتا ہے۔ اہل وطن کو ان تمام کامیابیوں کے بارے میں نہ بتانا حکمرانوں کی نالائقی ہے، ناسمجھی ہے یا بے نیازی اس کا وزیراعظم عمران کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔
ہوئے تم دوست جس کے…
Feb 06, 2019