بھارتی جمہوریت اورافغان ہندوکْش

برصغیر میں دیکھاجائے تو عمومی انداز ہی رائے دہندگان یعنی ریاستی باشندوں کو بے وقوف بنانا ہے۔ مغرب کی اپنی کمزوریوں اور انتخابی سقم کی بحث سے قطع نظر برصغیر یعنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں سیاسی جماعتیں یا انتخاب میں آنیوالے غیرحقیقی دعوے کرتے ہیں۔ گلے پھاڑ پھاڑ کر ایسے ایسے اعلانات کئے جاتے ہیں کہ پڑھے لکھوں کے بس میں ہوتو ایسے تمام ’نیتائوںکو چوک میں کان پکڑوادئیے جائیں۔ بی جے پی نے کاشتکاروں کیلئے نقد رقوم دینے کی جو سکیم شروع کی ہے اسے کانگریس کے صدر راہول گاندھی کسانوں کی توہین قرار دیتے ہیں کہ چھ ہزار میں ایک سال میں وہ کیاکریں گے اور جو مجموعی کاشتکاروں کی تعداد اس میں تو یہ رقم ویسے بھی ناکافی اور محض مذاق ہے۔
نریندر مودی پر صرف فرانس سے رافائل جیٹ طیاروں کی خریداریوں کے ایک کیس میں اٹھاون ہزار کروڑ کی رشوت ستانی کا الزام ہے۔ بھارتی معروف کاروباری فرد انیل انبانی مودی کے دوست یا سیاسی سرمایہ کار تصور ہوتے ہیں۔ سیاست ایک نفع بخش کاروبا رہے جو مل جل کرکیاجاتا ہے۔
2019ء میں بھارت میں بی جے پی ناکام ہوتی ہے تو بھارت اور خطے میں کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک مسئلہ الیکڑانک ووٹنگ مشینوں کو بھی درپیش ہے۔ بھارتی اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ الیکڑانک ووٹنگ مشینوں کی جگہ چھپے ہوئے بیلٹ پیپر کا وہ طریقہ کار اپنایا جائے جو دنیا کے اکثر ممالک میں رائج ہے۔ بھارتی الیکشن کمشن نے صاف انکار کرتے ہوئے اس موقف کااظہارکیا ہے کہ اب وقت بہت کم رہ گیا ہے جس میں بیلٹ کی چھپائی ممکن نہیں لہٰذا اب طے شدہ طریقہ کار کے مطابق الیکڑانک ووٹنگ مشین ہی استعمال ہوگی۔
امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس میں یہ بتایا جارہا ہے کہ بھارت میں انتخابات کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات میں خونریزی ہوسکتی ہے۔ بی جے پی اگر دوبارہ برسراقتدارآتی ہے تو یہ ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ ہوگی کیونکہ بعض تجزیہ کاروں کی سوچی سمجھی رائے میں سابق الیکشن میں مودی کا ابھرنا اور بی جے پی کو اقتدار میں لانا ایک ایجنڈے کا حصہ تھا جس کے اثرات پورے خطے تک پھیلے ہوئے ہیں۔
عالمی کھلاڑی بھارت کے اندر پھیلی ہوئی ابتری اور طوائف الملوکی کو کیسے اپنے ایجنڈے کیلئے استعمال میں لاتے ہیں، آنیوالا وقت یہ راز کھولنے کو ہے۔ اپنے خطے میں چین کو چھوڑ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایجنڈا اور قیادت کہیں ایک جگہ، ایک ہی سانچے میں تیار ہوکر آتی ہے۔ بس نام، مقامات اور اعدادوشمار تبدیل ہوتے۔
حرف آخر یہ کہ آج کے کالم پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے منفرد اسلوب کے حقیقی دانشور جناب سلیم منصور خالد فرماتے ہیں کہ بھارت کو ‘‘جمہوریت کے استحکام’’ کیلئے امریکی اور نیٹو اتحاد کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد کابل میں رہنا چاہئے تاکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کااعزاز رکھنے والا بھارت پارلیمان کی بالاتری میں موثر کردار ادا کرسکے ۔بھارتی اجتماعی بنیا دانش اور لوک سبھا اس حماقت سے بچالے گی ویسے یہ مشورہ پاکستان کے بھارتی شردھالوؤں از قسم سافمیائی لومڑوں کو دینا چاہئے سلیم منصور خالد بتاتے ہیں کہ قرنوں صدیوں سے کوہ ہندو کش کا سلسلہ ہندو کْشی کی وجہ سے معروف رہا ہے ۔ (ختم شد)

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن