کراچی:ماں کے ہاتھوں بچی کا قتل، گرفتار ملزمہ کے شوہر، والد سے بھی تفتیش کا فیصلہ

کراچی کے علاقے کلفٹن میں پھول جیسی کمسن بچی کو سمندر میں ڈبو کر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ماں کے ساتھ اس کے شوہر اور والد کو بھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوہر راشد شاہ سے اس امر کی تفتیش ہوگی کہ شادی کے بعد اس نے اپنی بیوی اور بچی کو ایسا گھریلو ماحول کیوں فراہم نہیں کیا کہ وہ پرسکون زندگی گزارتے؟ ،ملزمہ اگر اپنے شوہر کے ہاتھوں تنگ تھی تو اس کے باپ نے اسے تحفظ فراہم کیوں نہیں کیا۔پولیس کے مطابق 28 سالہ خاتون کا اپنی بچی کو سمندر میں ڈبو کر قتل کرنا اگرچہ ان کا ذاتی فعل ہے تاہم وہ جن حالات و واقعات کے تحت یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوئی، اس امر کی بھی تحقیقات کرنا ضروری ہیں، ملزمہ شکیلہ کے شوہر راشد شاہ سے اس امر کی تفتیش ہوگی کہ شادی کے بعد اس نے اپنی بیوی اور بچی کو ایسا گھریلو ماحول کیوں فراہم نہیں کیا کہ وہ پرسکون زندگی گزارتے؟۔پولیس کے مطابق اس امر کی بھی تفتیش کی جائے گی کہ وہ کون سے حالات تھے جس کے تحت ایک پڑھی لکھی خاتون اپنی ہی پھول جیسی بچی کو ظالمانہ طریقے سے قتل کرنے پر مجبور ہوئی۔سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن ساتھ طارق دھاریجو کے مطابق اس الزام کو 'قتل بالسبب' کہا جاتا ہے جس پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 عائد ہوتی ہے۔ایس ایس پی طارق دھاریجو کے مطابق ملزمہ اگر اپنے شوہر کے ہاتھوں تنگ تھی تو اس کے باپ نے اسے تحفظ فراہم کیوں نہیں کیا اور یہ کہ والدین ہونے کے ناطے انہوں نے اپنی بیٹی کی شکایات کے ازالے کے لیے کوئی کوشش کیوں نہیں کی؟ایس ایچ او ساحل پولیس اسٹیشن سیدہ غزالہ کے مطابق خاتون کا شوہر راشد شاہ کراچی کے ایک بڑے نجی اسپتال میں ملازم ہے، اگرچہ وہ اپنے ذاتی گھر میں رہائش پذیر ہے، تاہم مہنگائی کے اس دور میں وہ بیوی اور بچی کو ان کے ذاتی اخراجات کے لیے محض 100 روپے ہفتہ دیتا تھا جو کبھی بچی کی فرمائش پر ساڑھے چار سو روپے ماہانہ تک چلے جاتے تھے۔پولیس کے مطابق ملزمہ نے بیان دیا ہے کہ وہ کراچی کے چکا چوند ماحول میں ایک بچی کی خواہشات کو اس طرح کی تنگدستی میں دبا دبا کر انتہائی پریشان تھی۔پولیس اس امر کی بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ ملزمہ شکیلہ بی بی اے پاس ہے۔ وہ اپنی گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے مبینہ طور پر ملازمت کرنا چاہتی تھی مگر اس کا شوہر اسے ملازمت بھی نہیں کرنے دیتا تھا۔پولیس کے مطابق عام حالات میں اس کا اپنی بیوی کے ساتھ رویہ کیا ہوگا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بچی کی موت کی اطلاع ملنے کے بعد تھانے پہنچ کر راشد شاہ نے زیر حراست بیوی پر تشدد کرنا شروع کردیا اور وہ اسے بار بار کوس رہا تھا کہ 'بچی کو مار دیا یہ منحوس خود کیوں نہیں مری؟'، تاہم پولیس اہلکاروں نے اسے اس امر سے روکا۔پولیس کے مطابق ملزمہ کے شوہر کے رویے کی بنا پر بچی کی لاش باپ کی بجائے بچی کے تایا کے حوالے کی گئی۔ وا ضح رہے یہ واقعہ 4 فروری کی شام ڈیفنس فیز 8 میں فرحان شہید پارک کے قریب پیش آیا تھا، جب 28 سالہ شکیلہ راشد نے اپنی ڈھائی سالہ بیٹی انعم کو سمندر میں ڈبو دیا تھا، جس کی لاش گذشتہ روز دو دریا کے قریب سے ملی تھی۔خاتون نے پولیس کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کے شوہر نے ایک ماہ قبل اسے بلاوجہ گھر سے نکال دیا تھا اور اس کے باپ نے بھی گھر میں جگہ نہ دی، وہ دربدر ہوگئی تھی، جس کی بنا پر بچی سے چھٹکارا پا کر خود بھی مرنا چاہتی تھی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...