کلمے کے دشمن بات چیت سے قائل نہیں ہو سکتے!!!

Feb 06, 2020

محمد اکرم چوہدری

لیجئے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے مختص پانچ فروری بھی گذر گیا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر مسئلہ کشمیر عالمی طاقتوں کی توجہ حاصل کرنے اور عالمی امن کے ذمہ داروں کی توجہ حاصل کرنے اور انہیں اسی لاکھ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یقیناً یہ پہلا موقع نہیں ہے ٹکڑوں میں تقسیم مسلمان ہر سال پانچ فروری کو یہ عمل دہراتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب تک ایسا کرتے رہیں گے لیکن یہ بات طے ہے کہ امن کی خواہش کشمیریوں کے خون سے رنگی جا رہی ہے۔ امن قائم رکھنے کی خواہش کی داستان کشمیریوں کے خون سے لکھی جا رہی ہے۔ ہر حال میں یہ مصنوعی امن تباہ ہو گا اور جب کبھی کشمیر کی آزادی کا مرحلہ آئے گا تو اس مصنوعی اور امن کی یکطرفہ خواہش کا قتل لازم ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کبھی بھی بات چیت کے ذریعے قائل نہیں ہو گا نہ ہی وہ مذاکرات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائے گا، نہ ہی وہ کشمیر پر قبضے کو ختم کرے گا۔ ہم کتنا ہی اس مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈتے رہیں کشمیریوں کی کٹتی گردنیں، لٹتیں عصمتیں اور بچوں کی بیحرمتی دیکھتے رہیں آخر کار اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہی ہو گا جس سے سب بچنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ بہرحال یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دنیا کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے، دنیا کے امن کو قائم رکھنے اور بڑے انسانی مسائل سے بچانے کے لیے ہر سال پانچ فروری کو دنیا کو یہ یاد کروا دیا جاتا ہے کہ اگر دنیا مسائل سے محفوظ ہے، اگر خطے میں امن قائم ہے تو یہ کشمیریوں کے خون کے بدلے ہے۔ دنیا کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے مظلوم و محکوم کشمیریوں کا خون استعمال ہو رہا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر انہوں نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب بھی کیا۔ یہ ایونٹ آزاد کشمیر میں بسنے والوں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے ایک پیغام تھا کہ پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ پانچ فروری تاریخی اہمیت کا حامل ہے،پور ی قوم اور ادارے کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کیلئے آج ہم آواز ہے اور واضح پیغام دے رہی ہے کہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مشکلات کے باوجود پاکستان کشمیریوں کی مدد کر رہا ہے۔پوری پاکستانی قوم کے شکر گزار ہیں، یقین دلاتے ہیں کہ کشمیر میں پاکستان کا پرچم کبھی نیچے نہیں گرنے دیں گے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ مقبوضہ وادی کو جیل میں تبدیل کرتے ہوئے لاکھوں کشمیریوں کو قید کیا گیا ہے، کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنا حق خود ارادیت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ اِس سال پانچ فروری یکجہتی کے اظہار سے بڑھ کر ہے اور آج ہم اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، کشمیری ثابت قدمی سے بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم کشمیریوں کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ وادی کو جیل میں تبدیل کرتے ہوئے لاکھوں کشمیریوں کو قید کیا گیا ہے، کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنا حق خود ارادیت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ایک تقریب میں وزیر مملکت شہریار آفریدی نے کہا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے چیمپئن چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کشمیر کے نہتے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی وقت کی اہم ضرورت ہے۔بھارتی اداکار بھی آج بات کرتے ہیں کہ جناح درست بات کرتے تھے۔ عمران خان نے آر ایس ایس اور مودی کو دنیا بھر میں بے نقاب کیا،مودی کی پالیسیاں ہی بھارت کی دشمن ہے ان کو دیگر دشمنوں کی ضرورت نہیں، بھارت میں مسلمانوں کو ان کا حق ملے گا اور کشمیر کو حقیقت بنایا جائے گا۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں اور کشمیر ہمارا ہے۔کشمیر کو ڈیزائن کر کے علیحدہ کیا گیا ہے۔ ہمیں جنگ نہیں دانشمندی کی ضرورت ہے لیکن اگر جنگ ہوئی تو آخری سانس تک لڑیں گے۔ خواہش ہے کشمیر بھارت کے چنگل سے آزاد ہو اور پاکستان کا بازو بنے۔
یہ چند بیانات ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے ہم اپنی حکومت اور سیاستدانوں کی طرف دیکھتے ہیں تو جارحانہ پالیسی نظر نہیں آتی اس کے برعکس بھارتی حکومت اور ان کے اکثر و بیشتر سیاست دان اس حوالے سے دو ٹوک موقف رکھتے ہیں بالخصوص بے جی پی اور دیگر انتہا پسند جماعتوں کے پاس تو اٹوٹ انگ کے علاوہ کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ نہ ہی وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مانتے ہیں نہ ہی وہ ان قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے کیے رضامند ہیں۔ پانچ اگست دو ہزار انیس کو بھارتی حکومت نے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر کے ناصرف اقوام متحدہ کو چیلنج کیا ہے بلکہ اس نے پاکستان کو بھی یہی پیغام دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر کسی قسم کی مفاہمت یا نرمی دکھانے کے بجائے ہندوتوا کے فلسفے پر آگے بڑھے گا۔ البتہ چند معتدل سیاست دان ضرور نریندرا مودی کے ان اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بھارت میں سیاست دانوں کی اکثریت بے جی پی کے اقدامات کی نفی کرتی ہے لیکن وہ کشمیر کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں اسے متنازعہ علاقہ قرار دینے کی بات بھات میں نہیں ہوتی جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں کچھ اور ہی کہتی ہیں۔ پاکستان میں ہر طرف امن اور بات چیت کے ذریعے ہی کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ ہم جنگ کو آخری آپشن قرار دیتے ہیں حالانکہ اس مسئلے میں جنگ ہی پہلا اور آخری آپشن ہے اس کے بغیر کشمیریوں کی آزادی خواب ہی رہے گی۔
حکومت پاکستان کو اپنی کشمیر پالیسی میں جارحیت شامل کرنا پڑے گی بھارت کو جب تک اس کی زبان میں جواب نہیں دیا جائے گا اسے سمجھ نہیں آئے گی وہ مقبوضہ کشمیر کے بعد آزاد کشمیر کی بات کر رہے ہیں آزاد کشمیر کے نہتے شہری انکے جنگی جنون کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ہم کب تک صرف بیانات اور امن کی خواہش لیے کشمیریوں کی تحریک آزادی کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ یہ وقت دعا اور تبلیغ نہیں ہتھیاروں کے استعمال کا ہے۔ یہ جنگ مذہب کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ کشمیریوں کو نشانہ اسلام کی وجہ سے بنایا جا رہا ہے اور کلمے کے دشمن کبھی بات چیت سے قائل نہیں ہوں گے۔

مزیدخبریں