وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت نے ایل او سی کی دوسری جانب آباد بے گناہ شہریوں پر حملے جاری رکھے تو پاکستان کے لیے خاموش رہنا مشکل ہوجائے گا۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر نہتے شہریوں پر حملے ناصرف معمول بن گئے ہیں بلکہ اس میں شدت بھی آرہی ہے، جس کے پیش نظر لازم ہے کہ سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر کی جانب ایل او سی پر عسکری مبصر مشن کی واپسی کے لیے اصرار کرے۔ بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری پر بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر بھارت نے ایل او سی کے دوسری جانب نہتے شہریوں کے بہیمانہ قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا تواس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ خطے کی صورتحال کے پیش نظر پاکستان امن کا داعی ہے اور امن ہی سے رہنا چاہتا ہے، پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن کی آواز بلند کی ہے اوراس حوالے سے عملی اقدامات بھی کیئے ہیں۔تاہم پاکستان اپنا دفاع کرنا جانتا ہے اور مسلح افواج ہر صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت بھی رکھتی ہیں۔ادھر وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے حالیہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال پر بات چیت کرنے کے لئے سعودی عرب، ایران اور امریکہ کے دورے کیئے۔دیکھا جائے تو خطے کی سلامتی کے لئے پاکستان کا امریکہ اور طالبان کومذاکرات کی میز تک لانے میں ایک اہم کرداررہا ہے،اسی کے پیش نظر امریکہ اور ایران تنازعے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایران، سعودی عرب اور امریکہ کا دورہ کیا تاکہ مشرق وسطیٰ میں معاملات سنبھالنے میں کردار ادا کر سکے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ایشیا کا خطہ عالمی سیاست میں اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے، نئے علاقائی اور عالمی حالات ہماری خارجہ پالیسی کے لئے نئے چیلنجز لارہے ہیں، اسی تناظر میں پاکستانی سفارت کاروں پر پاکستان کے مفادات کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایشیا کا خطہ عالمی سیاست میں اہمیت اختیارکرتا جا رہا ہے، ہمیں ہر صورت پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ ہمارے سفارت کار اس بدلتی صورتحال میں پاکستان کو آگے لے جانے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ علاقائی سطح پر بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ ہمیں پرامن اور متحرک اقتصادی ہمسائیگی کے اصول کو آگے لے کر چلنا ہے۔ ہمیں تجارت، توانائی اور روابط کے فروغ سے اپنی اقتصادی استعداد کو خطے میں مستحکم بنانا ہے۔ روایتی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کو بڑھانے کیلئے متحرک ہونا ہو گا۔ سفارت کاری اور بین الاقوامی امور لازم و ملزوم ہیں۔ آج کے سفارت کار کو سفارتی کاری کے علم کے ساتھ ساتھ ،علم سیاست، بین الاقوامی قوانین اور معاشی سفارت کاری کو بھی سیکھنا ہے۔ اسی حوالے سے روایتی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ، مناظرے اور سوشل میڈیا پر دسترس حاصل کرنا ہوگی تاکہ ہر وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا دفاع کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہوں۔ آپ کا تجزیہ استدلالی اور آپ کی تجاویز عملی نوعیت کی ہونی چاہئیں۔دوسری جانب پاکستان خطے میں امن وامان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرنے کے درپے ہے۔جیسا کہ روس کے نائب وزیر توانائی اناتولی تی خنوف کی زیر قیادت وفد نے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر سے ملاقات کی ہے۔اسی طرح نارتھ سائوتھ گیس پائپ لائن پراجیکٹ دونوں ممالک کے درمیان بالخصوص کمرشل اور توانائی کے لحاظ سے تعاون کا انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ جسے مزید شفاف اور مالیاتی لحاظ سے فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ماہرین نے نارتھ سائوتھ گیس پائپ لائن پراجیکٹ کو پاکستان اور روس کے درمیان توانائی کے شعبہ میں تعاون کا اہم منصوبہ قرار دیاہے۔اس موقع پر روس کے نائب وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ نارتھ سائوتھ گیس پائپ لائن پراجیکٹ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور روس پاکستان کے ساتھ تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ادھرخطے میں اِس وقت مسئلہ کشمیر بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس کے حل کرنے کے لیے مثبت اقدامات کا آغاز ضروری ہے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا خطے میں پائیدارامن قائم نہیں ہو سکتا۔اس حوالے سے خواہ مخواہ بھارت بضد ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ان حالات میں امریکہ سے پاکستان کی توقعات پوری کرنے کا مطالبہ بالکل بر وقت ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرے۔اگر امریکی رہنما اہل ِ پاکستان اور اہل ِ کشمیر کی توقعات کا کچھ نہ کچھ احساس کر لیں تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آج بھی حالات نئے رخ پہ آسکتے ہیں ۔یہ امر حقیقی ہے کہ بھارتی حکومت کا نارواسلوک پوری دْنیا کے سامنے ہے،اس کے اقدامات بدنیتی پر مشتمل ہیں۔وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ بھارت کا ریاستی دہشت گردی کا چہرہ ہر سطح پر بے نقاب کرتے رہیں گئے ،پانچ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے بنیادی حقوق کا قتل عام ہورہا ہے ،بھارت کے اندر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے نظریے کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ اک نظر دوڑائی جائے تو پچھلے سال بھارتی فوج کی طرف سے سیکڑوں جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی گئیں،جن میں درجنوں کشمیری شہید ہوئے۔پلوامہ حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایاگیا، جھوٹا الزام لگا کر زمین آسمان ایک کرنے کی کوشش کی گئی، فوجیں آمنے سامنے آگئیں، پاکستان کو اپنی فضائی حدود بند کرنا پڑیں، معاشی و اقتصادی نقصان الگ اٹھانا پڑا۔بھارت کو اپنے پائلٹ ابھی نندن کی پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں گرفتاری ہضم ہوئی اور نہ ہی اس کی رہائی پر سکون آیا۔اس حوالے سے جمہوریہ چین نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے اور اس معاملے میں وہ اسلام آباد کے ساتھ ہیں ، چین اس حوالے سے چاہتا ہے کہ کشمیریوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق فراہم کر دیا جائے ۔ یہی مسئلہ کشمیر کا بہترین اور واحد حل ہے۔