مودی کی کارستانیاں

کرہ ارض پر موجود قدرت کا دلنشین شاہکار ،جنت نظیر وادی کشمیر سالوں سے ہندو بنئے کے ظلم و جور کا شکار ہے۔اہل کشمیر اپنا قیمتی لہو دے کر اس وادی کا قرض چکا رہے ہیں۔یوں تو ظلم کی اس داستان کو شروع ہوئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر موجودہ صورتحال نہایت دگرگوں اور تشویشناک ہے۔مودی اور اس کے چیلے اپنے گناونے عزائم لئے وادی میں سرگرم عمل ہیں اور کشمیر کا جغرافیہ بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آئے روز نوجوانوں کی ہلاکت کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں،ان گنت اقدام ایسے ہیں جو خبر کی زینت نہیں بن پاتے۔کشمیر تقسیم برصغیر سے لے کر آج تک  بین الاقوامی طور پر مصدقہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا ایک حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے اور دوسرے پر بھارت جبراًقابض ہے۔اس قبضے کے باوجود کشمیر  بین الاقوامی و کشمیری قوانین کے تحت ایک خصوصی اور انفرادی  حیثیت رکھتا ہے۔   5اگست 2019کو ہندوستان نے بھارتی آئین میں کشمیر کی اس خصوصی حیثیت پرقدغن لگائی۔بھارت کی حکمران اور ہندوتوا کی علمبردار بی جے پی کی آنکھوں میں کب سے کشمیر کی نیم خودمختاری کھٹک رہی تھی چنانچہ اس نے درجنوں درخواستیں اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں جمع کروا رکھی تھیں۔بالاخر بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے آرٹیکل 370کے خاتمے کے بل پر دستخط کر دییاور 5اگست2019کوںی جے پی کے امت شاہنے بھارتیہ ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں آرٹیکل370اور اس کی شقA-35 کو ختم کرنے کے بل کو پیش کر کے منظور کرا لیا،مزاحمت کو دبا دیا گیا۔اس اثناء  میں کشمیر میں ممکنہ احتجاج سے بچنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ۔اس آرٹیکل کا اجمالی تعارف یہ ہے کہ یہ کشمیر کی خودمختاری کا ضامن ہے۔1949میں بھارتی آئین سازی کے موقع پر کشمیر کی حیثیت کا مسئلہ ابھرا چنانچہ عارضی انتقال اور خصوصی معاملات سے متعلق نیا آرٹیکل 370 آئین میں شامل کیا گیا۔جس کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھا گیا۔1953میں بھارت نواز کشمیری وزیراعلی شیخ عبداللہ کی صدارتی حکم نامیپر غیر آئینی معزولی کے بعد جاری چپقلش کو روکنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم لال نہرو نے صدارتی حکم کے ذریعے 35۔A کا اضافہ کیا۔یہ اصل میں اس آرٹیکل370 کی مضبوط اور عملی صورت تھی،فرق یہ ہے کہ 1947میں اسے عارضی شکل دی گئی جبکہ 1953میں اس دفعہ کو مکمل قانونی حیثیت دے دی گئی۔اس دفعہ کا محرک مہاراجہ کے ساتھ ہوئے عہد میں درج تحفظ حقوق باشندگان ریاست کی شرائط ہیں۔اس قانون کے مطابق وفاقی حکومت مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق کے بنائی وادی میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کر سکتی۔ریاست کے داخلی امور میں وفاقی عمل دخل نہیں ہو گا۔مرکزی حکومت کوئی بھی انتظامی تبدیلی ریاستی اسمبلی کی اجازت سے ہی کر سکے گی۔وفاق ریاست میں ایمرجنسی نافذ نہیں کر سکتا۔اس دفعہ میں کوئی بھی ردوبدل ریاستی اسمبلی کی سفارش پر ہی ممکن ہو گا،مرکز اس کا مجاز نہیں ہو گا۔اب آتے ہیں 35Aکی طرف۔۔یہ حصہ ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔۔اس کے تحت صرف کشمیر میں پیدا ہونے والا ہی کشمیری شناخت رکھ سکتا ہے۔اراضی کی حفاظت کے پیش نظر کسی ایسی عورت کو جائیداد میں حصہ نہیں ملے گا جو غیر کشمیری سے شادی کرے گی۔کوء غیر کشمیری زمین نہیں خرید سکتا اور نہ ہی ووٹ کا حقدار ہو سکتا ہے۔ریاست کسی غیر کشمیری کو سرکاری نوکری نہیں دے سکتی۔کوء بھارتی کارپوریشن یا کمپنی قانونی جواز حاصل نہیں کر سکتی۔ریاست کے اندر رہائشی کالونیاںبنانے،صنعتی کارخانے،ڈیم اوردیگر کارخانے  لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔اس آرٹیکل کے خاتمے کے دوسرے ہی دن دونوں ایوانوں راجیہ سبھا اور لوک سبھا سے جموں وکشمیر ری   آرگنائزیشن ایکٹ 2019ء  منظور کرا لیا گیا جس کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وفاقی اکائی میں بدل دیا گیا، اس کے ساتھ ہی الگ جھنڈا اور آئین دونوں ختم ہو گئے۔ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔اول جموں وکشمیر جسکی اسمبلی تو ہو گی لیکن وہ لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت ہوگی جسکا انتظام نئی دہلی کے پاس ہو گا۔دوسرا لداخ جسکو براہ راست وفاق چلائے گا ۔بھارتی شہری ریاست میں اب جائیداد خرید سکتے ہیں۔کھلا کاروبار ممکن ہو گیا ہے۔35Aکے تحلیل ہونے کا مطلب کشمیر میں اسرائیلی طرز کی نوآبادیوں کے قیام کی راہ ہموار ہونا ہے ۔مودی نے اسی سال15اگست کی تقریر میں کہا کہ کشمیر پر اقدام سے ایک قوم ایک اکائی کا خواب پورا ہو گیا ہے۔اس خواب کے پس پردہ گھناؤنے عزائم چھپے ہیں،کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسا کر مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی تیاری ہورہی ہے تاکہ کبھی نام نہاد ریفرنڈم کا ڈرامہ رچا کر من مانے نتائج حاصل کر کے اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے لیکن یہ بھارت کی بھول ہے۔کشمیری عوام نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ، اس ظلم کے ساتھ ہی کرفیو لگا کر 80لاکھ کشمیری اپنے گھروں میں قید کر لیے گئے۔45ہزار فوج کا اضافہ پہلے ہی کر دیا گیاتھا۔ہر چپے پر فوجی تعینات کردیے گئے۔ حریت اور بھارت نواز تمام لیڈر شپ کو پابند سلاسل کردیا گیا۔وادی میں موت کی سی خاموشی طاری ہو گئی ،سڑکیں اور گلیاں سنسان۔مکمل میڈیا بلیک آوٹ،انٹرنیٹ منقطع اور ٹیلی فون خاموش کر دیے گئے۔اس جدید مواصلاتی دور میں کشمیر کو دنیا سے کاٹ دیا گیا۔سکول وکالج بند،شٹرڈاون کاروبار معطل،غرض زندگی اجیرن بنا دی گئی۔نریندر مودی سمیت 6لاکھ ارکان پر مشتملRSSاپنے پیشوا مسولینی کی طرح اپنے حریف پر ہر طرح کے ظلم کو جائز سمجھتے ہیں۔اسی کا ایک دست راست اور گجرات میں مسلم کش فسادات کا سرغنہ گریش چندر مومو کو جموں کشمیر کا گورنر نامزد کیا گیا ۔مودی کے پالتو ابھی بھی  وادی میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔شہادتوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔سرچ آپریشن اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ نے نومبر2019 میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اس اقدام کے بعدمحض تین ماہ میں 5106لوگ گرفتار ہوئے اور پکڑ دھکڑ اور غارت گری کا یہ سلسلہ مستقل جاری  ہے ‘بھارتی فورسز مقبوضہ خطے میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز اسپشل پاور ایکٹ جیسے غیر انسانی قوانین کے تحت سرگرم ہیں۔آئے روز معصوم لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن