جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں

جنگ رہے اور امن بھی ہو
کیاممکن ہے تم ہی کہو
یہ سچ ہے کہ جنگ کے ہوتے ہوئے امن قائم کرنے کی باتیں کرنا ہی بے وقوفی ہے، دومتضاد چیزوں کو یکجا کیسے کیا جاسکتا ہے، مسئلہ کشمیر آج سے نہیں سالوں اور اب تو لگتا ہے صدیوں سے اپنے حق کی آواز بلند کرر ہا ہے لیکن بلند ایوانوں میں نہ اْن کی درد بھری چیخیں اپنا اثر دکھا رہی ہیں نہ اْنہیں اْن کا حق نصیب ہورہا ہے، برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع یہ ریاست69547مربع میل پر واقع ہے۔1947ء کے بعد یہ ریاست جموں وکشمیر دوحصوں میں تقسیم ہوگئی۔ جموں کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہوگیا۔ ایک کروڑ سے زیادہ آبادی رکھنے والے اس علاقہ میں اب تک ہزاروں مجاہدین شہید ہوچکے ہیں۔ بچ جانیوالے دردناک اذّیت کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ ہندوراجائوں نے طویل عرصہ تک اس ریاست پر حکومت کی۔ یعنی ا?زادی کی یہ خواہش آج کی نہیں صدیوں ہی کی بات ہے۔ 1946ء میں انگریزوں نے ریاست جموں وکشمیر کو75لاکھ روپوں میں ڈوگرہ راج گلاب سنگھ کے ہاتھوںفروخت کردیا تھا۔ بزورِ شمشیر اور بزورِزرغلام بنے رہنے والی اس قوم کے جذبہ حریت کو سلام ہے۔جوکبھی ختم تو کیا معدوم بھی نہیں ہوا۔ جیسے جیسے وقت گزررہا ہے۔ جیسے جیسے نوجوان شہداء کا خون اس زمین پر بہہ رہا ہے۔ ویسے ویسے آزادی کے متوالے پہلے سے زیادہ پرجوش ہوکر باہر نکلتے ہیں۔تقسیم ہند کے بعد ہندوراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کیخلاف26اکتوبر1947ء کو بھارت کیساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ہی پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوا۔سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949ء کو جنگ جاری ہوگئی۔سلامتی کونسل نے 1948ء میں منظور شدہ قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کرنے کیلئے بھی کہا۔ہندئووں نے ان سے رائے شماری کا وعدہ بھی کرلیا لیکن بعد میں نہرواپنے وعدے سے مکر گیا اور اس کام کو سرانجام نہ دیا۔ لیکن اس تگ ودو اس جنگ کا نتیجہ آج ہم نے کیا دیکھا کہ ہماری نظروں کے سامنے ہمارے نام نہاد سیاستدانوں کی چپ کا فائدہ اْٹھایا بھارت نے اور کشمیر کو اپنے علاقوں میں شامل کرنے کا بل ہی منظور کروالیا۔مجھے اسکے بعد اربابِ اختیار کی لمبی خاموشی نے مزید افسردہ کردیا ہے۔ اسکے بعد کشمیر سے یکجہتی کیلئے جس طرح سب اسلامی ممالک کو مل کر قراردادیں منظور کروانی چاہئے تھیں۔ اْس طرح کی کبھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ کشمیر کو پاکستان اپنے علاقوں میں شامل کرنا چاہتا ہے لہذااسکی جنگ بھی صرف پاکستان کو ہی لڑنی چاہئے تو یہ سوچ بھی غلط ہے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ خطہ زمین حاصل کرنا نہیں بلکہ اْن کو ازلی غلامی کے شکنجے سے آزاد بھی کروانا ہے اور اس آزادی کی جنگ میں مظلوم کشمیریوں کی آواز تمام مسلمانوں کو بن جانا چاہئے تھا۔اس بار بھی ہر بار کی طرح ہم نے5فروری کو یوم ِ یکجہتی کشمیر منایا لیکن کیا یکجہتی کا محض اظہار کافی ہے؟ اس مسئلے کوحل کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ عملی طور پر کچھ کردکھانے کی ضرورت ہے لیکن ایسا کیوں لگتا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزررہا ہے یہ اہم ترین معاملہ ہمارے ہاتھ سے سرکتا چلا جارہا ہے۔ یومِ یکجہتی کشمیر کی آواز بلند کرنا اگرچہ اہم ہے اس کے ذریعے اقوام متحدہ تک اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا ہے کہ اس آزاد دْنیا میں ایک ایسی ریاست بھی ہے جس کے افراد اپنی مرضی سے سانس تک بھی نہیں لے سکتے۔ وہ اپنی مرضی کی نوکریاں اور کاروبار نہیں کرسکتے۔ کشمیر میں ہر25افراد پر ایک بھاری فوجی تعینات ہے۔ جنوری1989ء سے دسمبر2014ء تک 106027 گھروں اور دکانوں کو مسمار کرکے کشمیریوں کا معاشی قتل کیا گیا ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ کو بار بار یاد کروانا ہے کہ 94140ء کشمیریوں کوآزادی کا نعرہ لگانے کی پاداش میں شہید کیا جاچکا ہے۔ 107509کشمیر ی بچے یتیمی اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں حقوق کے علمبرداروں کو یاد دلوانا ہے کہ 10129 عورتیں بھارتی افواج کی ہوس کا نشانہ بن چکی ہیں۔ یورپین ممالک میں آزادی رائے کا اظہار ہر ایک کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی گستاخانہ خاکے تک بھی بنا ڈالے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بھی بنے۔ تب بھی وہاں کی گورنمنٹس یہ کہہ کر خاموش ہوجاتی ہیں کہ آزادی رائے کا اظہار سب کا حق ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتے۔یہاں تو پوری ریاست اپنے حقیقی حق کیلئے آہ وبکا کر رہی ہے۔ نجانے اقوام عالم کی مہذب قوموں کے بنائے ہوئے اْصول وقوانین کے حقدار آخر کون ہیں؟
سنا ہے بہت سستا ہے خون وہاں کا
ایک بستی ہے جسے لوگ کشمیرکہتے ہیں

ای پیپر دی نیشن