آزمائے ہوئے بازو

Feb 06, 2021

ملک عاصم ڈوگر …منقلب

دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کاموں میں سے ایک کام پسپائی اختیار کرنا ہوتا ہے۔جنگ عظیم دوئم سے قبل وار سکولز میں "جنگ کے دوران پسپائی اختیار کرنا"باقاعدہ مضمون کے طور پر شامل نہیں تھا۔ خوفناک اورنہ رکنے والی جنگوں سے بچنے کیلئے اسے باقاعدہ فن کی شکل دی گئی۔لہٰذا اب جنگ میں"پیچھے ہٹنا"بھی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ فن صرف جنگی حکمت عملی میں ہی نہیں عام زندگی اور سیاسی تحریکوں میں بھی بڑا مفید اورکار گرہے۔ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات اوراقتدار کی خاطر اس فن میں ید طولیٰ رکھتی ہے۔ سیاسی رقابت میں حد سے گزر جانے والے اچانک شیر و شکر ہو جائیں تو یہ عوام کو آسانی سے ہضم نہیں ہوتا۔ 90 کی دہائی میں نوازشریف اور بے نظیر کے درمیان سیاسی محاذ آرائی اورذاتی مفادات کی جنگ نے جمہوریت کے کمزور پودے کو شدید نقصان پہنچایا۔ جس کا فائدہ صرف غیرسیاسی طاقتوں کو ہوا۔ آخر کار اس لڑائی کا اختتام مشرف کے مارشل لاء پرہوا۔جس وقت ان سیاسی طاقتوں کو ہوش آیا تو ایک فریق اڈیالہ جیل میں تو دوسری فریق لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہی تھیں۔ دونوں نے جمہوریت بچانے کیلئے ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا۔عوام،صحافی،دانشور،سول سوسائٹی نے یقین کر لیا۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کو اقتدار ملا تو نواز شریف نے پھرسے پرانے کھیل کھیلنا شروع کردیئے۔ عامی خدمت کا میدان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن کے لئے خالی تھا۔ ایک طرف میثاق جمہوریت چل رہا تھا تو دوسری طرف یہ جماعتیں ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں مصروف رہیں۔ دونوں جماعتوں نے طاقت کے حصول کے لئے کبھی عدلیہ کی مدد لینا چاہی تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ شہباز شریف ان خفیہ ملاقاتوں کے لئے مشہور ہیں۔اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کے بعد آصف زرداری اپنی راہ تبدیل کرچکے ہیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے سے لے سینیٹ میں صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ بنوانے کا ذکر فخریہ کرتے رہے ہیں۔عوام کی محرومیاں اور مسائل کے عنوان سے کیے جانے والے میثاق جمہوریت نے پچھلے13برسوں میں عوام کو ریلیف نہیں دیا۔مرکزمیں پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کے بالترتیب5،5 برس ، سندھ میں پیپلز پارٹی کے مسلسل ساڑھے12 برس اور مسلم لیگ ن کے پنجاب میں 10 سالہ اقتدار نے عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی۔ البتہ ان حکمرانوں، ان کی اولادوں اورساتھیوں نے بہت ترقی کی ہے۔ سکوٹر سے لینڈ کروزر تک کے سفر کی مثالیں عام ہیں۔ مل جل کر جمہوریت کا یہ سفر اچھا چل رہا تھا۔ دونوں کھلاڑی اس قدر کانفیڈنٹ ہو گئے کہ لانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑنا چاہا۔ لیکن گیم پلٹتے وقت نہیں لگتا۔اب ایک تیسرا فریق میدان میں اتر چکا ہے۔عوام کو پھر سے نئے خواب دکھائے گئے۔ان کی اس حالت ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے، لوٹی ہوئی دولت ان کے قدموں میں نچھاور کرنے اور ایک ایسی ریاست کا خواب جس کی بنیاد انصاف اورمساوات ہو گی۔ پچھلے ڈھائی برسوں میں حکمرانوں کو اپنے تمام اہداف میں پسپائی کا سامناہے۔ہر کئے گئے وعدے پر یو ٹرن لینا پڑا۔ لیکن اس پسپائی کو بھی کامیابی بنا کر پیش کرنے میں انہوں نے سابقہ حکمرانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یو ٹرنز پر ان کا کہنا ہے کہ ایک بڑا لیڈر عظیم مقصد کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتا رہتا ہے لیکن جو اصل اعتراف وہ کرچکے ہیں کہ بنا تیاری اور ٹیم کے حکومت میں آنا عوام کی مزید زبوں حالی کا سبب بنا ہے۔ سب سے بڑا وعدہ احتساب اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا تھا۔عمران خان اس میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔اس کی ایک وجہ قانون سازی میں عددی اکثریت کا نہ ہونا اور دوسرا ریاستی عملداری میں کرپٹ عناصر کا غلبہ ہے۔اقتدارسے دوری اوراحتساب کے خوف سے گھبرائی دست و گریباں اپوزیشن نے ایک بار پھر ہاتھ ملا لیا ہے۔ پی ڈی ایم کے عنوان سے سڑکوں سے پارلیمنٹ کا راستہ بنانے میں کوشاں یہ جماعتیں عوامی حمایت سے تاحال محروم ہیں۔پی ڈٰی ایم کے پہلے جلسے سے انتہائی مؤقف اختیار کرنے والی پی ڈی ایم مسلسل پسپائی کا شکارہے۔ مولانا فضل الرحمن ، مریم نواز اور بلاول بھٹو لفظوں کے گورکھ دھندے سے ان پسپائیوں کو چینج آف سٹریٹجی قراد دے کر عوام کو مسلسل دھوکا دے رہے ہیں۔ استعفے ،آر یا پار،دھرنا، اسٹیبلشمنٹ  کے خلاف تحریک سب سے یو ٹرن لیا جا چکا ہے۔پیپلزپارٹی کی عدم اعتماد کی تجویز مؤخر کر کے مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ کی تاریخ دی ہے۔ پی ڈی ایم نے اپنے تمام سابقہ نعروں سے دستبردار ہوکر اسے مہنگائی مارچ کا نام دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کوبھی شامل کرنیکا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایک بار پھر عوام کی آڑ میں اقتدار کی سنہری کرسی کا حصول خواہش ہے۔ پاکستان کے عوام 73 برس کے مسلسل دھوکوں کے اس کھیل کو سمجھ چکے ہیں۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ ملک میں ہائبرڈ حکومت ہے یا مکمل جمہوری۔ میڈیا آزاد ہے یا نہیں۔ وہ صرف اپنا اورآنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں آزمائے ہوئے بازو ہیں۔ آزمائے ہوئے کو آزمانا بے وقوفی ہے۔عوامی شرکت کے بغیر پی ڈی ایم کا لانگ مارچ کا حال بھی کہیں الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنے جیسا نہ ہو۔ ایسا ہوا تو یہ پسپائی پی ڈی ایم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
 یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

مزیدخبریں