ہم اہل قفل

برادرم آصف عنایت بٹ سے دو نسلوں کا ہے تعلق جواب چالیس سال سے زائد عرصہ پر محیط ہوچکا ۔دکھ سکھ کے ایسے ساتھی اب نہیں ملتے ۔ایک معاصر اخبار میں کالم لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ان کا گذشتہ کالم "بندہ چھوٹا ہے"خاصے کی چیز ہے ۔پھول کی پتی اور ہیرے کے جگرکا آمیختہ انکے اس کالم کی بین السطورکی آبرو ہیں۔ بہت کچھ یاد دلادیا،خوابوں اور عذابوں کا یہ سفر ایوب خاں کے چل چلائو کے زمانے سے شروع ہوا۔ پھر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف انکے پورے دور حکومت میں یہ سفر رکا نہیں۔انہیں دنوں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں میرا داخلہ ہوگیا۔داخلہ فارم بھی جیل سے بھر کر کالج بھجوائے گئے کیونکہ تب میں 1974کی تحریک ختم نبوت کا اسیر تھا ۔سب سے پہلا اسیر جو سب سے بعد رہا ہوا ۔لاہور میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں لیاقت بلوچ  کے مقابلے میں انتخاب لڑا۔پھردیکھتے ہی دیکھتے تحریک استقلال کا صوبائی عہدیدار جو بنا تو لاہور کی سیاست میں بڑا بھرپورحصہ ڈالا۔ میاں نواز شریف ، میاں منظور وٹو،میاں محمود علی قصوری ،ملک حامد سرفراز،علامہ احسان الٰہی ظہیر، منظورگیلانی ۔ڈاکٹر خالد رانجھا،ملک وزیر علی ،آپا منہاز رفیع وغیرہ تحریک استقلال کے بڑے راہنمائوں میں تھے اور سب بڑے لوگ تھے ۔آغا شورش کی مجلسیں اسکے سواء ۔ایسے لوگوں کی صحبت بجائے خود ایک درس گاہ کا کام دیتی ہے ۔ لاہور تو ایسا مقناطیسی شہر ہے جو ہر شعبہ زندگی کے اہل لوگوں کو کھینچ کر اپنے پاس لے آتا ہے ۔ایک وقت میںتحریک استقلال ملک بھر سے بڑے لوگوں سے بھر گئی ۔سرحد سے لیکر کراچی اور بلوچستان کے پہاڑوں سے لے کر پنجاب کے میدانوں اور کھلیانوں تک اکبر بگٹی،وائی سوات ،میاں گل اورنگ زیب ، جسٹس میاں اللہ نواز ، ملک حیدر عثمان تک ہر شخص ایک تاریخ تھا۔ افسوس کہ پھر تحریک استقلال بھی تاریخ کا حصہ بن گئی لاہور کی سٹرکوں پر ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف جد وجہد کرتے ہوئے حبیب جالب سے ملاقات ہوگئی ۔جو دوستی اور پھر ایک ہم سفر اور ہم عصرقیدی کی شکل اختیار کرگئی  اتنے میں بھٹو صاحب کا عہد تمام ہوا اور ضیاء الحق کی سیاہ رات کا آغاز ہوا ۔دو تین سال کے عرصہ میں ہی اسکے خلاف "MRD"ـ (تحریک بحالی جمہوریت )کے نام سے ایک سیاسی اتحاد وجود میں آگیا۔جس میں اب تحریک استقلال اور پیپلز پارٹی بھی شامل ہوگئی ۔اور ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔مارشل لاء کے خلاف لوگوں کے حق حکمرانی ،آئین کی بحالی اور ووٹ کی حرمت کیلئے مگر بغیر کسی غیرملکی انوسٹمینٹ(Investment) کے ۔اس سفر میں صرف شاہی قلعے کی اذیتیں اور تکلیفیں شامل تھیں یا جیل اور موت کا منظر بریانی اور بندے لانے کے پیسے نہیں ملتے تھے۔بھائی آصف عنایت کا تعلق معراج محمد خاں مرحوم کی جماعت "پاکستان قومی محاذ آزادی "سے تھا۔وہ بھی MRDکے مقدس مقاصد کیلئے ہم سفر ہوئے اور گوجرانوالہ کے کنوینر بنادیئے گئے۔آصف بھائی نے اس  خاکسار کے اگر یہ لکھا کہ جالب اور دیگر بڑے شعراء نے مزاحمتی شاعری کی اور میں نے عملی طورپر یہ سب کچھ کردکھایا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔مجھے یادہے 83ء میں جب انکی صدارت میں ہونے والے رسول بخش پلیجو کے جلسہ کے بعد میں گوجرانوالہ سے لاہور آیا تو14اگست کو MRDکے پلیٹ فارم سے ضیاء الحق کیخلاف تحریک کا آغاز کرنے کیلئے مجھے سابقہ صدر پاکستان فاروق لغاری کے ہمراہ لاہور ہائی کورٹ سے گرفتاری دینا پڑی اور شام تک ہم دونوں کوٹ لکھپت پہنچادیئے گئے ۔جہاں چند دنوں کے اندراندر خورشید محمود قصوری ،ملک قاسم ، منظورگیلانی اعتراز احسن ،ملک حامد سرفراز ،میاں بشیر ظفر،اسلم گورداسپوری ،علامہ عباس اور چوہدری انور عزیز کے علاوہ بیسوں لوگ زنداں کو رونق بخشنے آگئے۔پھر مجھے اور فاروق لغاری کو سنٹرل جیل ساہیوال بھیج دیاگیا۔جہاں بدنام زمانہ 6چکی میں ہمیں فاروق قریشی اور رائو مہر وز اختر کے ساتھ رکھا گیا۔جیل میں یہی وہ حصہ تھاجہاں فیض احمد فیض کو ماضی میں رکھا گیاتھا۔یہاں انہوں نے وقت گذاری کی خاطر انواع واقسام کے پھولوں کی کیاریاں لگائی تھیں جواب تک بہاردے رہی تھیں۔ فیض نے اپنی معروف زمانہ غزل گلوں میں رنگ بھرے ‘ بادنوبہارچلے ۔۔۔اسی 6چکی میں لکھی ۔جہاں تک حبیب جالب کی عظیم شخصیت کا تعلق ہے تو برس ہابرس مجھے اسکے ساتھ قید وبند اور لاہور کی سٹرکوں پر مٹر گشت کرنے کی سعادتیںبھی نصیب ہوئیں۔یہ سب بڑے لوگ تھے۔ایک جاندار، توانا صدا ،تاریخ سیاست ،ثقافت، تمدن اور معاشرے کے زیروبم کے چشم دید گواہ۔ ایک طرززندگی اور درسگاہ تھے برادرم آصف عنایت نے اس خاکسار کو بھی اسی صف میں کھڑا کرکے خود بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔کالم طویل ہورہا ہے ۔فیض ،جالب ،اسلم گورداسپوری اور مزاحمتی شاعروں کی جدوجہد اور انکے ساتھ اپنی مجلسیں ومحفلیں ایک مکمل کتاب مانگتی ہیں۔ چلیں باقی باتیں پھر کبھی سہی۔ 

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن