آئے روز پولیس گردی کے خونچکاں واقعات دل دہلا دیتے ہیں، ابھی اسلام آباد کے اُسامہ ندیم ستی کاخون خشک نہ ہوا تھا کہ فیصل آبادکے وقاص کے قتل کی لرزاخیزاوررونگٹے کھڑے کر دینے والی خبر نے دل گرفتہ کر دیا۔ آخر یہ سب کیا ہے؟اسامہ ستی کیس میں تحقیقاتی رپورٹ چونکا دینے والی ہے،وقاص کا کیس بھی اسی سے ملتا جلتا ہے ۔کہنے کو پولیس ہماری محافظ ہے۔ مگر یہ کیسے محافظ ہیں جو جان کے دشمن بن بیٹھے ہیں؟پولیس کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کہاں گئیں؟ کس نے پولیس کو دہشت گردی کا لائسنس دے رکھا ہے؟یہ وہ سوال ہیں جو آج ہر کسی کی زبان پر ہیں مگر کوئی ہے جو ان سوالات کے جواب دیکر عوام کو مطمئن کر سکتا ہے؟ موجودہ حکومت ’سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ پر تو آپے سے باہر ہو رہی تھی مگر اس کے اپنے عہد میں ’سانحہ ساہیوال‘ ہو ااس کا کیا بنا؟ اڑھائی سالہ دور میں مختلف شہروں میں پولس گردی کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر کسی ایک مجرم کو قرارِ واقعی سزا نہیںملی۔آئے روزایسی خبریں ملتی ہیں کہ ڈاکو ناکہ لگا کر لوٹ مار کر رہے تھے، گشت پرمامور پولیس موقعہ واردات پر پہنچی تو ڈاکووں نے پولیس پرفائرنگ کر دی ،جوابی فائرنگ سے اتنے ڈاکو موقع پر ہلاک ، اتنے اہلکار زخمی ہوئے،جبکہ ڈاکووں کے ساتھی فرار ہو گئے۔بعد میں پتا چلتا ہے کہ ہلاک ہونے والے پہلے سے پولیس کی حراست میں تھے۔ ایسے واقعات وطن عزیز کی دھرتی پر آئے روز رونما ہوتے ہیں۔جن میں ڈاکو کہہ کر مار دیے جانے والے بعد میں بے گناہ ثابت ہوتے ہیں۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 99فیصد پولیس مقابلے جعلی یا فرضی ہوتے ہیں۔ ان جعلی پولیس مقابلوں میں بہت سے باتیں مشترک ہوتی ہیں مثلاً ان مقابلوں میں ڈاکو ہی ہلاک ہوتے ہیں ، اہلکارصرف زخمی، وہ بھی پنڈلی میں گولی لگنے سے۔جنہیں علاج اور آرام کیلیے لمبی چھٹی، انعام اور علاج کی مد میں مالی معاونت بھی ملتی ہے۔ دوسرا یہ کہ مارے جانے والے ’ڈاکو‘اصل میں پہلے سے ہی پولیس کی حراست میں ہوتے ہیں۔اس حقیقت کوبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اصل پولیس مقابلوں میںصرف پولیس اہلکار شہید ہوتے ہیں ڈاکونہیں،اسی طرح پولیس حراست میں مجرم پیشی کیلئے آتے ہوئے اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوتے ہیں پولیس کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔یہ کیسے ساتھی ہوتے ہیں جو ساتھیوں کو چھڑانے کیلئے، پولیس کو گز ند پہنچائے بغیر ساتھیوں کو ہی مار دیتے ہیں۔ اس سے بڑی اور تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں آج تک کسی جعلی پولیس مقابلے میں مرنے والوں کو انصاف ملا نہ ہی کسی اہلکار کو سزا ہوئی۔ کیونکہ پولیس کیخلاف تفتیش پولیس ہی کرتی ہے جو مجرموں کو مکھن سے بال کی طرح نکال لیتی ہے۔ ٹریننگ میں جب اسلحہ چلانا سکھایا جاتا ہے تو ہر حال میں تحمل اور احتیاط کی تلقین بھی کی جاتی ہے ۔یہ کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں بلکہ روز کا معمول ہے۔کِتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم اللہ کو ایک تو مانتے ہیں مگر اللہ کی ایک نہیں مانتے‘،اس جملے میں کتنا وزن ہے۔ اس کا سادہ مفہوم تو یہ بھی ہے کہ ہم نام کے مسلمان ہیں عملاً اسلام اتنا ہی دور ہے جتنا مکہ مکرمہ ۔ اللہ تعالی کا بڑا واضح پیغام ہے کہ ’ اسلام سلامتی کا مذہب ہے‘ اللہ نے ’ایک شخص کے قتل کو تمام انسانوں( انسانیت) کا قتل قرار دیا، سورۃ الفرقان ۴۸،۴۹،المائدہ۳۲، الاسرا۳۳ اورسورۃ النسائ۹۲اور متعدد احادیث میں انسانی جان کی حرمت اورکسی انسان کے ناحق قتل کی شدید الفاظ میں مذمت و ممانعت فرمائی اور کسی ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دیاگیا جبکہ جو شخص کسی کی جان بچائے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی ۔کسی مسلمان کا ناحق قتل کرنیوالا ملتِ اسلامیہ سے ہی نکل جاتا ہے‘۔اُس کیلئے سخت ترین سزا کا حکم ہے ۔مگر قوم کے مسلمان محافظوں نے قاتلوں کا روپ دھار رکھا ہے۔’ سانحہ ماڈل ٹاؤن‘،’ سانحہ ساہیوال‘ کے شہیدوں کا خون آج بھی انصاف کا متلاشی ہے جو انہی محافظوں کے عملی کارہائے نمایاں ہیں ۔جنگ آزادی کے بعد برطانوی حکومت نے 1861 میں پولیس ایکٹ نافذ کیا جس کا بنیادی مقصدبظاہرقومی مفادات کا تحفظ تھا مگردراصل عوام کو زیر دست رکھنا اور ان کا استحصال مقصود تھا ۔ تھانہ کلچر اس کی بدنما صورت ہے۔ اس ایکٹ کو تب بھی عوامی رہنماؤں نے ’کالا قانون‘ قراردیا تھا،2002میں مشرف دور میں اس ایکٹ میں ترمیم کی سنجیدہ کوشش ہوئی لیکن مفاد پرستوں نے اسے ناکام بنا دیا۔ تب سے اب تک،یہی عوامی نمائندے ، اقتدار میں آکر اسے عوام اور مخالفین کو دبانے کیلئے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ’تھانے بکتے ہیں‘ بولیاں لگتی ہیں‘ مزے کی بات آج تک اس الزام کی تردید تک نہیں ہوئی۔جعلی پولیس مقابوں میں اب تک کتنے بے گناہ موت کے گھاٹ اتارے جا چکے۔ عابد باکسر اور راؤ انوار جیسے کردارقانون کا آج بھی مُنہ چڑا رہے ہیںاور قانون ہمیشہ کی طرح آج بھی چین کی نیند سو رہا ہے۔تو اس قاتل ا ور دہشت گرد پولیس کو کون ’نتھ‘ ڈالے گا؟پولیس اصلاحات کب ہوں گی،’ جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت؟