ہر سال 5 فروری کو پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد کشمیریوں کی پُر امن جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار ہے۔ اس دن کی نسبت سے پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلیوں کا اہتمام کرتے ہیں اور دوسری جانب اقوام متحدہ کو باور کروایا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروایا جائے۔ بھارت نے 27 اکتوبر 1947ء کو ریاست جموں و کشمیر پر ناجائز قبضہ کر لیا تھا۔ اسکے ضمن میں ریاست جموں و کشمیر کے ظالم حکمران راجہ ہری سنگھ سے 26 اکتوبر 1947ء کو معاہدہ کیا تھا جس میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی جبکہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔ کشمیر کے مسئلہ میں بھارت کا مؤقف یہ رہا ہے کہ کشمیر پر قبضہ کی وجہ راجہ ہری سنگھ سے کیا جانے والا معاہدہ تھا جبکہ بھارت نے اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا جس میں ریاست انڈیا نے ریاست جموں و کشمیر کو آئین کے مطابق خصوصی حیثیت قائم رکھنے کی گارنٹی دی تھی۔ اس تناظر میں کشمیر کے ظالم حکمران راجہ ہری سنگھ سے کیا جانے والا معاہدہ صرف کشمیر پر قبضہ کرنے کیلئے جواز بنانا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا 16 اگست 2019 کو کشمیر کے مسئلہ پر خصوصی اجلاس ہوا جس میں بھارت پر زور دیا گیا تھا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق حل کرے اور اس اجلاس میں بھارت نے بھرپور کوشش کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو ایجنڈا سے خارج کردیا جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو متفقہ قرارداد پاس کرنے سے روکا جا سکے مگر بھارت کی تمام کوششوں کے باوجود تقریباً 30 سال کے بعد کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں موضع بحث بنا اور بھارتی جارحیت موضوع بحث رہی۔
ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ انتہائی دردناک ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں طویل عرصہ مغل حکمرانوں نے حکومت کی۔ جس کے بعد انگریزیوں نے 1857ء میں برصغیر پاک و ہند پر قبضہ حاصل کرلیا۔ ریاست جموں و کشمیر سکھ ریاست کا حصہ تھا۔ جب انگریزوں نے 1857ء میں سکھوں کو شکست دی اور سکھ ریاست پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے ایک معاہدہ کے مطابق 7.5 لاکھ کے عوض ریاست جموں و کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ کو فروخت کردیا۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کی وفات (1857) کے بعد رنجیر سنگھ (1857-1885) ، پرتاب سنگھ (1885-1925) اور ہری سنگھ (1925-1949) ریاست جموں و کشمیر کے حکمران رہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں 80فیصد آبادی مسلم تھی۔ کشمیری مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں پر بہت ظلم کیے جس کے نتیجے میں کشمیریوں نے 1931ء میں جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس پر مہاراجہ نے کشمیریوں پر ظلم و ستم میں اضافہ کردیا۔ 5فروری یوم یکجہتی کشمیر کو 1931ء میں کشمیر کمیٹی کا کشمیری مہاراجہ کے ظلم و ستم کیخلاف کشمیریوں کی جدوجہد کیلئے متفقہ فیصلہ کو تاریخی طور پر منسوب کیا جاتا ہے۔ 1990ء میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے حکومت کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کی تجویز دی۔ اس طرح 1991 سے باقاعدہ 5فروری کو ہر سال یوم کشمیر پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ 5فروری یوم یکجہتی کشمیر کی ایک تاریخی حیثیت ہے جوکہ کشمیریوں کی طویل جدوجہد کی عظیم داستان ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947ء کو بھارتی حکومت کے ساتھ ریاست بھارت میں شمولیت کا معاہدہ کرلیا تھا اور اس طرح 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیری عوام کی خواہش کے برعکس بھارتی فوج نے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا جس کے نتیجے میں کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوگیا تھا۔ بھارتی حکمرانوں کے خیال کیمطابق چند ماہ قبل آزاد ہونے والی ریاست پاکستان اس قابل نہیں کہ بھارتی فوجی کی جارحیت کا مقابلہ کرسکے۔ مگر قبائلی عوام کی بھرپور مدد سے پاکستان نے بھارتی افواج کا بھرپور مقابلہ کیا اور تقریباً 35فیصد ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی افواج کے قبضہ سے آزاد کروا کر آزاد جموں و کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی۔ جب بھارت نے دیکھا کہ پاکستانی عوام بھارتی افواج کو بآسانی شکست دے رہے ہیں تو بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر کو 1 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ لے کر گئی اور جنگ بندی کی درخواست کی۔ اس طرح اقوام متحدہ نے دو نوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کروا دی اور متفقہ قرارداد پاس ہوئی کہ کشمیر کا مسئلہ جمہوری طریقے سے عوامی استصواب رائے سے حل کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ میں 1947-48 میں مسئلہ کشمیر پر کئی قراردادیں پاس کی گئیں۔ سلامتی کونسل میں 21 اپریل 1948 کے قرارداد کے مطابق بنیادی اصول طے پایا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو استصواب رائے کے مطابق حل کرے گا۔ مزید برآں 3 اگست 1948ء اور 5جنوری 1949 کو بھارت پر اقوام متحدہ کے قراردادوں پر عمل کروانے پر زو دیا گیا۔
بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے لیت و لعل سے کام لیتا رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں 1965 اور 1971 کی خوفناک جنگیں بھی مسئلہ کشمیر کی بنیاد بنی ہیں۔ بھارت نے جنگی صلاحیت میں اضافہ کرنا شروع کردیا اور پاکستان نے دفاع کیلئے جنگی صلاحیت کو بہتر بنانا شروع کردیا۔ بھارت نے خطہ میں تسلط کیلئے ایٹمی دھماکوں کا تجربہ کیا جس کے جواب میں پاکستان نے 28 اور 30 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکوں کا کامیاب تجربہ کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ بھارت کا جنگی صلاحیت میں بھی علاقہ میں تسلط کا سبب نہ بن سکا ہے۔ بھارتی افواج کے تمام ظلم و ستم کے باوجود کشمیری عوام کی آزادی کی تحریک مسلسل جاری ہے جس میں اب تک لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور ہزاروں کشمیری بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آزادی کی تحریک عوامی مقبولیت کی بنیاد پر کی جاتی ہے تو اس کا اختتام کامیابی کی صورت میں ہوتا ہے۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تمام فورم پر یکسوئی کے ساتھ نمایاں کیا جائے تاکہ دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب مبذول رہے۔ مسئلہ کشمیر ایک خطرناک مسئلہ ہے جو کسی وقت بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو قراردادوں کی روشنی میں حل کروائے۔