کراچی (نیوز رپورٹر) پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا کہ پاک سر زمین پارٹی اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدہ طے پایا گیا۔ معاہدے کا فائدہ کراچی سے کشمور تک کی عوام کو پہنچے گا۔ ہمارے مطالبات کسی رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ بلخصوص کراچی سے کشمور اور بالعموم پاکستان کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے کیئے گئے تھے۔اٹھارویں ترمیم کے پھل اگر عوام تک نہیں پہنچے تو پھر صوبائی حکمرانوں سے یہ پھل چھن جائے گا، پھر اٹھارویں ترمیم چھیننے پر پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوگا۔ 18 فروری تک ان تمام چیزوں کو دیکھیں گے، ہمیں امید ہے کہ سندھ حکومت معاہدے کا پاس رکھے گی، اگر سندھ حکومت نے کچھ آنا کانی کی تو ہم پھر آزاد ہیں۔ ہم نے آج تک کوئی جھوٹ نہیں بولا ہے۔میئر کا آفس کراچی کے لوگوں کا ہے۔ میں اس آفس کے لیے اختیار مانگ رہا ہوں ۔یہ ایک تحریک ہے یہ پورے پاکستان میں پھیلے گی ہمیں تمام چیزوں کا اختیار دو،پیپلز پارٹی کے کارکنان اپنے وزرا سے اختیار خود لیں۔ وزرا اور ایم این اے نالوں کی صفائی میں لگے ہیں نالوں کی صفائی وزرا کا کام نہیں ہے۔حکمرانوں کو اختیارات بانٹنے پڑیں گے کیونکہ یہ مقامی معاملہ نہیں ہے یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔اللہ نے ہماری آواز سب کے دلوں میں اتار دی ہے۔ہمارے پنڈال میں تمام زبانیں بولنے والے موجود تھے اور پی ایس پی عوام کے لئے امید کی ایک کرن ہے، اب کوئی بھی یہاں لاشوں کا کاروبار نہیں کرسکے گا، اس سے بڑی کامیابی کوئی اور ہو نہیں سکتی۔ آج یوم کشمیر ہے، کشمیریوں کو بتانا چاہتا ہوں بھارت نے پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی میں لوگوں کو تیار کر رکھا تھا۔ بھارت کراچی میں لاشیں گرا کر کشمیر کی آواز دباتا تھا، جب جب تحریک آزادی کشمیر زور پکڑتی تھی تب تب کراچی آگ اور خون میں نہلایا جاتا تھا، ہم نے کراچی میں بیٹھ کر کشمیر کی جنگ لڑی ہے، ریاست نے کبھی آواز لگائی تو ہم کشمیریوں کے ساتھ جسمانی طور پر شانہ بشانہ کھڑے ہوکر لڑیں گے اور کشمیر کو آزادی دلوائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان ہاس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر صدر پی ایس پی انیس قائم خانی، سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور نیشل کونسل کے اراکین بھی موجود تھے۔ مصطفی کمال نے مزید کہا کہ میں اللہ تعالی کا کیسے شکر ادا کروں کہ میرے رب نے مجھے ایسے لوگ دئیے ہیں جن کی پارٹی کے پاس نہ کوئی عہدہ ہے، نہ کوئی مراعات ہے، وہ اپنی قربانیاں دے رہے ہیں۔ حکومت کو ہماری کی جائز بات ماننا پڑی، ہم نے یہ کام عبادت سمجھ کر کیا ہے، ہمیں اختیارات کراچی اور کشمور کی گلیوں میں لیکر آنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ سیاہ قانون آیا نہیں تھا، ہم نومبر میں پہلا احتجاجی مظاہرہ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں گولیمار سے سرجانی تک کیا، پھر ضلع شرقی میں حسن اسکوائر سے وفاقی اردو یونیورسٹی تک احتجاج کیا، پھر کورنگی، اورنگی ٹان اور آخر میں حسن اسکوائر پر احتجاج کیا پھر اسی دن کارکنانِ کا اجلاس بلانے کی تاریخ دی کارکنان نے فیصلہ کیا کہ 30 جنوری کو وزیراعلی ہاس جانے کا فیصلہ کیا ،ہم نے فوراہ چوک کی اجازت لی وہاں سے پانچ منٹ کے فاصلے پر وزیر اعلی ہاس ہے۔پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت 23 جنوری کو ہمارے پاس آئی، اسی دن انہوں نے ہمارے 70 فیصد مطالبات مان لیے تھے۔