نوازشریف کا صحت کارڈ بھی بن گیا
بھئی مبارک ہو میاں نوازشریف کو بھی صحت کارڈ جاری کر دیا گیا ہے۔ اب وہ اس کارڈکی بدولت 10 لاکھ روپے تک اپنا علاج پاکستان میں بھی کروا سکیں گے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بارے میں اطلاع کے مطابق خود محکمہ صحت بے خبر ہے۔اورپھرمیاں جی کا تو شناختی کارڈ بھی بلاک ہے تو یہ صحت کارڈکیسے بن گیا۔ اب میاں نوازشریف کو چاہئے کہ وہ اس کارڈ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے جلدازجلد پاکستان تشریف لائیں اور صحت کارڈ وصول کریں۔ جب تک وہ واپس نہیں آتے‘ محکمہ صحت والے ان کا کارڈ سنبھالے رکھیں گے۔ ویسے میاں صاحب بھی بڑے سیانے ہیں۔ وہ ایک کارڈ کی خاطرکبھی بھی پاکستان نہیں آئیں گے۔ اس سے زیادہ مالیت کے نجانے کتنے کارڈ ان کی جیب میں پڑے ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ انہیں بے وقوف بنانے کی سازش بھی ہو سکتی ہے ۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ حکومت اس طرح یہ ثابت کرنا چاہتی ہو کہ اس کی صحت کارڈ کی سہولت اپنوں‘ بیگانوں سب کے لئے عام ہے۔ اس سے حامی اور مخالف دونوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ واقعی یہ بہت اہم بات ہے کہ اس صحت کارڈکی بدولت بہت سے لوگ مفت علاج کرا رہے ہیں۔ سندھ کے علاوہ پورا پاکستان مستفید ہو رہا ہے۔ امید ہے حکومت سندھ بھی اس سے اپنے عوام کو زیادہ دیر محروم نہیں رکھے گی۔
٭٭٭٭
لانگ مارچ میں ہلکی پھلکی موسیقی نہیں پکا راگ ہوگا: رانا ثناء اﷲ
کمال کی بات ہے رانا جی بھی موسیقی کے دلدادہ نکلے۔ وہ ہلکی پھلکی موسیقی اور پکے راگ کا فرق بھی جانتے ہیں۔ شاید انہیں علم ہے کہ ہلکی پھلکی موسیقی تو پی ٹی آئی کے دھرنوں اور جلسوں میں رونق لگاتی تھی۔ ان جلسوں اور دھرنوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد دن رات شامل ہو کر ان کی رونق بڑھاتی تھی۔ مگر پی ڈی ایم کی قیادت جے یو آئی جیسی مذہبی جماعت کر رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن گرچہ کوئی متشددانہ بیانیہ نہیں رکھتے۔ مگر ان میں کچھ دوسری اپوزیشن جماعتوں میں یہ امر مشترک ہے کہ وہ ناچ نغمے کی بجائے شاید راگ رنگ پسند کریں گی۔ سو رانا ثناء اﷲ بھی اس لئے کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ میں بس شرط یہ ہے کہ اگر وہ ہوا تووہاں پکا راگ بجے گا۔ اب یہ بات رانا جی کو کون سمجھائے کہ ہمارے ہاں اب پکے راگوں کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اس کو سننے اور سمجھنے والے باقی رہے ہی نہیں۔ لے دے کر ان میں اب صرف راگ درباری بچا ہے۔ کیونکہ اس کے سننے اور بجانے والے بہت ہیں۔ چاہئے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ ورنہ پکے راگوں میں تو بقول شاعر؎
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کیسے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
اب اگر لانگ مارچ میں دیبک راگ الاپا گیا تو پھر ہو سکتا ہے آگ لگ جائے مگر اس وقت شاید کوئی بھی گھر جلا کر ہاتھ تاپنے کے موڈ میں نہیں۔
٭٭٭٭
پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط مل گئی
یہ ایک ارب ڈالر وہ تحفہ ہے جس نے پورے ملک کو پہلے ہی مہنگائی کے طوفان سے ڈبوکررکھ دیا۔ اس قسط کو روک کر آئی ایم ایف کے قصابوں نے کئی ماہ حکومت کی لگامیں کھینچ کر رکھیں اور ان سے ہر وہ شرط منوائی جو آئی ایم ایف کے مفاد میں تھی۔ اب ظاہری بات ہے جو شرائط آئی ایم ایف کے مفاد میں ہوتی ہیں‘ وہ عوام کے مفاد میں نہیں ہوتیں بلکہ وہ عوامی مفادات کی قاتل ہوتی ہیں۔ سو پہلے کئی سو ارب روپے کے ٹیکس کا بوجھ ڈال کر عوام کی کمر توڑی گئی۔ منی بجٹ لایا گیا جو ظاہر ہے مہنگائی میں مزید اضافے کی نوید لاتا ہے۔ ہر چیز کی قیمت کو کئی سو گنا تک بڑھایا گیا۔ تب کہیں جا کر حکومت کے ان اقدامات سے آئی ایم ایف کے سینے میں ٹھنڈک پڑی اور اس نے اپنے احکامات پر حکومت پاکستان کی بجاآوری کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی جس پر وزیر اور مشیروں نے مبارک سلامت کا وہ طوفان برپا کیا کہ جیسے کسی نئے ظل الٰہی کو درباری کورنش اور تسلیمات بجا لاتے ہوئے کرتے ہیں۔ یہ تو ان شرائط کا احوال ہے جو سامنے آئے‘ باقی جو معاہدے کے مطابق پس پردہ ہیں‘ ان کا ذکر کون کرے۔ وہ ازخود مناسب وقت آنے پر سامنے آ ئیں گے تو پتہ چلے گا۔ فی الحال تو؎
یہ کیا ہوا کب ہوا کیسے ہوا
چھوڑ یہ نہ سوچو…
اس لئے فی الحال ایک ارب ڈالر کا قرضہ ملنے کی خوشی میں جو جشن منایا جا رہا ہے‘ اس میں شریک ہوکر خوشیاں منائیں۔
٭٭٭٭
بھارت ناقابل اعتبار‘ امریکہ کے ساتھ بھی ہاتھ کر گیا
امریکہ آج کل بھارت کو بے بی ڈول بنائے ہر وقت سینے سے لگائے پھرتا ہے مگر وہ مکاری جو بھارت کی فطرت میں شامل ہے‘ وہ بھلا کہاںاسے کسی ایک کا ہوکر رہنے دے۔ پہلے یہی بھارت امریکہ کے سینے پر مونگ دلتا روس کی بانہوں میں جھولے جھولتا تھا۔ جب روس ٹکڑوں میں تقسیم ہوا‘ اس کی طاقت کم ہوئی‘ عالمی رعب و دبدبہ کم ہوا۔ بھارت نے بھی بے وفا محبوب کی طرح روس سے نظریں چرانا شروع کر دیں۔ مگر مکمل علیحدگی سے اجتناب کیا۔ جب امریکہ تنہا سپر طاقت بنا‘ عالمی حکمرانی کا تاج سجا چکا۔
بھارت نے چپکے چپکے امریکہ کے ساتھ پیار اور دوستی کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔ جلد ہی وہ امریکہ کے محبوب کا درجہ پا گیا دل میں سماگیا۔ دکھ کی بات یہ نہیں کہ بھارت امریکہ کا دوست بنا‘ افسوس اس بات پر ہے پاکستان نے ہر مشکل وقت میں امریکہ کا ساتھ دیا مگر امریکہ نے اس پر بھروسہ نہیں کیا اوراسے ہر مشکل میں دھوکہ دیا۔ آج کل امریکہ اور بھارت کی یاری عروج پر ہے۔ اب بھارت نے یو این او کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں یوکرائن کے مسئلے پر امریکہ کے خلاف ووٹ دے کر امریکہ قرارداد کو مسترد کرانے میں اہم کرداراداکیا۔اور روس کی حمایت کر دی۔ اب کیا امریکہ بے وفا محبوب بھارت کوبھی مورد الزام ٹھہرائے گا یاخاموشی سے یہ زہر کا گھونٹ پی جائے گا۔ ویسے امریکہ جیسے بے وفا دوست کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے تاکہ اسے وفاداروں کی یاداوران کی قدرآ ئے۔