پاکستانی زبانیں باہم حریف نہیں!

پاکستان کے بہت سے لاینحل مسائل میں سے ایک مسئلہ زبانوں کا بھی ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ابتدائی چند برسوں میں یہ بھی واضح نہیں تھا کہ اگر ملک تقسیم ہوا تو اس کے کتنے خود مختار حصے بنیں گے؟ اسی لیے 1940ء کی قرار دادِ لاہور میں States یعنی ’ریاستیں‘ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ بہت بعد میں اس میں ترمیم کرکے States کے لفظ کو State میں تبدیل کیا گیا۔ اگر مسلمانانِ ہند کی دو ریاستیں آزاد ہوتیں تو مشرقی بنگال کے نام سے بننے والی ریاست کی سرکاری زبان کون سی ہوتی؟ ظاہر ہے کہ بنگالی۔ جب بعدازاں پاکستان کے نام سے ایک ریاست وجود میں آئی تو پورے ملک میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیدیا گیا۔ اگر مشرقی پاکستان میں بنگالی کو سرکاری زبان قرار دیا جاتا تو اس سے بہت فائدہ ہوتا۔ اب موجودہ پاکستان کی بڑی زبانوں میں اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی، بلوچی وغیرہ شامل ہیں مگر متعدد زبانیں ایسی ہیں جو کسی نہ کسی علاقے میں بولی جاتی ہیں۔ ان کے بولنے والے تعداد میں کم ہیں تاہم کم تعداد کے باوجود کسی زبان کو نظرانداز کرنا غلط ہوگا۔
انجمنِ ترقیِ اردو ہند نے ایک نعرہ ایجاد کیا تھا، ’اردو پڑھو، اردو لکھو اور اردو بولو‘۔ یہ نعرہ اس لیے لگایا گیا کہ اس وقت ہندی کی ترویج سے اردو خطرے میں سمجھی گئی۔ انجمنِ ترقیِ اردو کے جن اربابِ اختیار نے یہ نعرہ رائج کیا انھیں اندازہ نہیں تھا کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں ہندی قومی زبان بن جائے گی، اردو بولنے والے مرکزی علاقے میں ہندی رائج ہو جائے گی اور نصابات وغیرہ سکول اور کالج کی سطح پر ہندی میں پڑھائے جانے لگیں گے۔ ایسے میں اترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار وغیرہ میں اس نعرے پر کون عمل کرے گا؟ یہ نعرہ نیک نیتی پر مبنی ہونے کے باوجود ’مستقبل بینی‘ کے حوالے سے غیرحقیقی تھا۔
اب موجودہ پاکستان میں مختلف زبانوں کی صورتحال کا سرسری جائزہ لیجیے۔ سب سے بڑی زبان پنجابی ہے۔ پھر سندھی اور پشتو ہیں، پھر سرائیکی اور بلوچی وغیرہ ہیں۔ اردو کے بارے میں اعداد و شمار یہ کہتے ہیں کہ دس فیصد لوگ اردو بولتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ثانوی زبان کے طور پر اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس لحاظ سے یہ پاکستان کی سب سے بڑی زبان بن جاتی ہے۔ آپ کسی کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی بول چال کی زبان کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں خواہ مخواہ اردو بولنے لگے تاہم اس سے تمام لوگ آگاہ ہیں کہ پورے پاکستان کے ہر علاقے میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ باہمی رابطے کے لیے اردو کا سہارا لیتے ہیں۔ فرض کیجیے یہ سہارا نہ رہے تو لوگ رابطے کے لیے کون سی زبان استعمال کریں گے؟ میرا خیال یہ ہے کہ اردو والوں کو علاقائی زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں تحفظ دینے کی کوششوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ان کی ترقی کے لیے جو کاوشیں اپنی حدود میں کی جائیں ان کی حمایت کرنی چاہیے لیکن انھیں اردو کا مدمقابل نہیں بنانا چاہیے۔
پنجاب میں تقریباً ڈیڑھ سو سے سال سے اردو نصابی زبان کے طور پر رائج ہے۔ جب 1882ء میں پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو اس پر شدید اختلافِ رائے تھا کہ انگریزی، پنجابی اور اردو میں سے یونیورسٹی کس زبان کو رائج کرے۔ شدید بحث مباحثے کے بعد کثرتِ رائے سے فیصلہ اردو کے حق میں ہوا۔ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں پہلی جماعت سے لے کر مڈل تک اردو کو لازمی زبان کے طور پر پڑھایا جانے لگا۔ کئی نسلیں اردو پڑھ کر جوان ہوئیں۔ ان میں بہت بڑے ادیب اور شاعر پیدا ہوئے۔ اس عرصے میں اردو کے جتنے بڑے لکھنے والے پنجاب نے پیدا کیے اتنے ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں پیدا نہیں ہوئے۔ اگر پنجابی اور اردو زبانوں میں اتنا قرب نہ ہوتا تو یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ خاص طور پر بیسویں صدی میں اہلِ پنجاب نے شعوری طور پر اردو کو اپنی تحریری زبان تسلیم کر لیا تھا اور پنجاب بھر میں ’اردو پڑھو، اردو لکھو اور اردو بولو‘ کے نعرے کے پہلے دونوں حصے عملاً رائج ہو چکے تھے۔ میرا خیال ہے کہ آپ بول چال کی زبان تو اپنی سہولت کے مطابق اختیار کریں مگر اردو پڑھو اور اردو لکھو کے دونوں حصوں کو لوگوں کی سہولت پر چھوڑ دینا چاہیے۔
اس سلسلے میں ایک اور مسئلہ جسے خواہ مخواہ الجھا دیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ بچے بولتے تو اپنی مادری زبان ہیں لیکن انھیں سکولوں میں اردو لکھنے اور پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سکولوں میں اساتذہ نصابی کتابوں کے اسباق کی وضاحت مادری زبان ہی میں کرتے ہیں۔ پاکستان کی اکثر زبانوں کے ذخیرۂ لفظی میں بہت اشتراک ہے۔ مرکزی اردو بورڈ لاہور نے بہت سال پہلے ایک ہفت زبانی لغت تیار کرائی تھی۔ اسے دیکھ لیجیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ سب پاکستانی زبانوں میں استعمال ہونے والے ذخیرۂ الفاظ میں کتنا اشتراک ہے۔ تمام پاکستانی زبانوں کا رسم الخط بہت معمولی تبدیلیوں کے علاوہ اصلاً ایک ہی ہے۔ تمام زبانوں میں جملوں کی ساخت ایک جیسی ہے۔ وادیِ سندھ میں واقع ان تمام علاقوں کا کلچر بھی ایک جیسا ہے۔ اس لیے یہاں زبانوں میں بہت کچھ اشتراک پایا جاتا ہے۔ مثلاً پنجاب کو لیجیے۔ مرکزی پنجاب کی پنجابی، پوٹھوہاری، ہندکو، چنابی، سرائیکی میں اتنا اشتراک ہے کہ ایک علاقے کا رہنے والا دوسرے علاقے کے لوگوں کی بات سمجھ لیتا ہے اور اپنی بات سمجھا لیتا ہے۔ یہی صورت اردو کی بھی ہے۔ آپ کہیں بھی جائیں اردو میں بات سمجھنے سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ بڑی زبانیں ہر جگہ دوسری زبانوں کو مٹا رہی ہیں۔ لسانیات کی اصطلاح کے مطابق بے شمار زبانوں کو مٹ جانے کا خطرہ درپیش ہے۔ اس میں ہماری بھی کئی زبانیں شامل ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ مل بیٹھیں، ایک دوسرے سے اس مسئلے پر افہام و تفہیم سے کام لیں۔ اپنی تمام زبانوں کی حدود طے کریں اور ان کے فروغ کے لیے کوشاں رہیں۔ اس بات پر بھی اتفاقِ رائے ہونا چاہیے کہ انگریزی کی ہمیں کہاں کہاں اور کتنی ضرورت ہے؟ انگریزی عملاً دنیا کی سب سے بڑی زبان بن چکی ہے لیکن ہمیں اعلیٰ درجے کی انگریزی کی تفہیم چاہیے یا بول چال کی انگریزی میں ’گٹ پٹ‘ کی ضرورت ہے؟ یہاں اب انگریزی میں علم سیکھنے سکھانے سے زیادہ زور بول چال پر دیا جانے لگا ہے۔ میرے خیال میں یہ نامناسب ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر علاقائی زبان کو اس کا مقام ملنا چاہیے۔ اس کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس میں ہر قسم کے علم و ادب کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے لیکن اردو اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے کا حریف بنانے کی کوششیں کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہوں گی۔ پاکستانی اردو اب ہندوستانی اردو سے مختلف زبان بنتی جا رہی ہے۔ پچاس سال کے بعد یہ اور زیادہ دور ہو جائیں گی۔ اس لیے علاقائی زبانوں کی طرح پاکستانی اردو بھی پاکستان کی اپنی زبان ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن